عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کو ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفی سے روک دیا گیا
کیلیفورنیا کے ایک وفاقی جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو عارضی طور پر روکا ہے کہ وہ امریکی محکمہ دفاع اور دیگر وفاقی ایجنسیوں میں حال ہی میں بھرتی کیے گئے ہزاروں ملازمین کو برطرف نہ کرے۔
سان فرانسسکو کے جج ولیم السوپ نے کہا کہ امریکی دفتر برائے پرسنل مینجمنٹ کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی وفاقی ایجنسی کو ملازمین، خاص طور پر نئے بھرتی کیے گئے پروبیشنری ملازمین، کو نکالنے کا حکم دے۔
ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ارب پتی ایلون مسک حکومت کے محکموں اور ملازمین کی تعداد کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس پر ڈیموکریٹس، یونینوں اور وفاقی کارکنوں نے سخت احتجاج کیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ کٹوتیاں غیر قانونی ہیں اور حکومتی کاموں میں مشکلات پیدا کر سکتی ہیں۔

انتظامیہ پہلے ہی کچھ اہم ملازمین کو واپس بلانے پر مجبور ہو چکی ہے، مگر ٹرمپ نے مسک کی مکمل حمایت کرتے ہوئے 6.7 ٹریلین ڈالر کے امریکی بجٹ میں سے 1 ٹریلین ڈالر کم کرنے کے منصوبے کو قبول کر لیا ہے۔
بجٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ملازمتوں میں کمی سے مسک کا ہدف حاصل نہیں ہوگا، بلکہ ممکنہ طور پر حکومتی فلاحی منصوبوں میں بھی کٹوتی کرنا پڑے گی۔
جمعرات کو موسمیاتی تحقیق کرنے والے نیشنل اوشینک اینڈ ایٹموسفیرک ایڈمنسٹریشن کے سیکڑوں نئے ملازمین کو بتایا گیا کہ انہیں نوکری سے نکالا جا رہا ہے۔ اسی طرح، انٹرنل ریونیو سروس میں جدید کاری پر کام کرنے والے 60 ملازمین کو بھی خدشہ ہے کہ ان کی نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں۔
اس کے علاوہ، او پی ایم نے کم از کم دو درجن دور سے کام کرنے والے ملازمین کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ اپنی نوکریاں برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو واشنگٹن منتقل ہو جائیں، اور انہیں 7 مارچ تک فیصلہ کرنے کا وقت دیا گیا ہے۔