Follw Us on:

نماز جمعہ کے دوران جامعہ حقانیہ میں خودکش دھماکا، مولانا عبدالحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے

حسیب احمد
حسیب احمد
ریاست خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ (فوٹو: گوگل)

 نوشہرہ میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی جامع مسجد میں خودکش دھماکے کے دوران مولانا حامد الحق سمیت چھ نمازی شہید ہوگئے جبکہ نو سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

ڈی پی او نوشہرہ عبدالرشید کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئی ہیں، مولانا حامد الحق کے بیٹے ثانی حقانی نے تصدیق کی ہے کہ دھماکے کے وقت سیکڑوں افراد مسجد میں موجود تھے۔

ھماکے میں 4 سے 5 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

سنٹرل پولیس آفس نے بتایا کہ دھماکا نماز جمعہ کے بعد مدرسے کے اندر ہوا تاہم دھماکے کی نوعیت کا پتہ لگایا جا رہا ہے،

پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے پہنچ گئے ہیں جب کہ 6 ایمبولینسز اور میڈیکل ٹیمیں بھی پہنچ گئی ہیں ، زخمیوں کو مقامی ہسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔

پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا جبکہ نوشہرہ کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔

ترجمان محمد عاصم نے بتایا کہ کوڑہ خٹک دھماکا کے بعد ایل آر ایچ میں ایمرجنسی کو الرٹ کر دیا گیا ہے ، ایل آر ایچ انتظامیہ اور طبی عملہ زخمیوں کے علاج کے لیے تیار ہے۔

مزید پڑھیں: پنجاب پولیس کا خواتین کی حفاظت کے لیے انقلابی قدم

ڈی پی او عبدالرشید نے بتایا کہ حقانیہ مدرسہ اکوڑہ خٹک میں دھماکا خودکش تھا، تاہم شواہد اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

آئی جی کے پی نے بتایا کہ دھماکے میں مولانا حامدالحق شدید زخمی ہوگئے ہیں اور حالت تشویشناک ہے، دھماکے میں جے یو آئی (س )کے سربراہ کو نشانہ بنایا۔اکوڑہ خٹک دھماکے پر گورنر خیبرپختونخوا نے اعلیٰ حکام سے رابطہ کر کے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

گورنر فیصل کنڈی نے مولانا حامد الحق حقانی اور دیگر افراد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک دھماکہ اسلام و پاکستان دشمن قوتوں کی سازش ہے، صوبائی حکومت کی نااہلی اورملی بھگت کاخمیازہ نہ جانےکب تک صوبہ بھگتے گا۔

وزیراعظم شہبازشریف نے دارالعلوم حقانیہ میں دھماکے کی شدیدمذمت کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی اور مولانا حامد الحق سمیت دیگر زخمیوں کی صحت یابی کے لیے دعا کی۔

شہباز شریف نے زخمیوں کوہرممکن طبی امداد فراہم کرنےکی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بزدلانہ اور مذموم کارروائیاں دہشتگردی کے خلاف عزم کو پست نہیں کر سکتیں، ملک سے ہر قسم کی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پُر عزم ہیں۔

 

واضح رہے کہ بلوچستان میں جنوری اور فرروی کے پہلے ہفتے میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں شدت آئی ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان میں نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک جامع آپریشن کی منظوری دی تھی۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ رواں سال جنوری میں ملک بھر میں کم از کم دہشت گردی کے 74 حملے ریکارڈ کیے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر 91 افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔

رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد میں 35 سیکیورٹی اہلکار ، 20 عام شہری جب کہ 36 دہشت گرد شامل ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے ان واقعات میں 117 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں 53 سیکیورٹی فورسز ، 54 عام شہری اور 10 دہشت گرد شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے آپریشنز میں بھی شدت آئی ہے اور صرف جنوری میں کم از کم 185 عسکریت پسند مختلف کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ 2016 کے بعد پہلا مہینہ ہے کہ جب دہشت گردوں کی ہلاکتوں میں سب سے زیادہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔یہ واقعات فروری کے پہلے ہفتے میں پیش آنے والے واقعات کے علاوہ ہیں۔

پانچ جنوری کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے صدر مقام تربت میں ایک بس پر خودکش بم دھماکے میں چار افراد ہلاک جب کہ 36 سے زائد زخمی ہوگئے۔

نو جنوری کو خضدار کی تحصیل زہری ٹاون میں ایک درجن سے زائد مسلح افراد نے لیویز تھانہ پر قبضہ کیا۔ اس کے بعد نادرا آفس، نجی بینک اور موبائل ٹاور کو نذرِ آتش کر دیا۔

محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں 2024 کے دوران دہشت گردی کی 200 سے زائد واقعات رونما ہوئے جس میں 207 افراد مارے گئے۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس