سرائیل اپنے اتحادی امریکا پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ شام کو کمزور اور غیر مرکزیت میں رکھے، اس کے لیے روس کو شام میں اپنے فوجی اڈے رکھنے کی اجازت دے کر ترکی کی بڑھتی ہوئی اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
عالمی میڈیا کے مطابق اسرائیل کا خیال ہے کہ شام میں ترکی کے اثرات اسرائیل کی سرحدوں کے لیے ایک خطرہ بن سکتے ہیں۔ جبکہ اسرائیل نے حالیہ مہینوں میں امریکا کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں اپنی تشویشات کو شدت سے اٹھایا ہے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق شام میں ترکی کے حامی اسلام پسند حکام کا اقتدار میں آنا اسرائیل کے لیے ایک نیا چیلنج بن سکتا ہے کیونکہ یہ عناصر حماس اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن سکتے ہیں۔
یہ ساری صورتحال اسرائیل اور ترکی کے تعلقات کی بڑھتی ہوئی کشیدگی کا حصہ ہے، خاص طور پر جب سے غزہ جنگ کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں شدید تناؤ آیا۔
اسرائیل کے لیے ترکی کا شام میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ ترکی شام کے حالیہ اسلام پسند حکمرانوں کو اپنا حمایتی سمجھتا ہے۔
اسرائیل کی کوششوں کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ اسرائیل نے امریکی حکومت کے اہم اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران اپنا موقف پیش کیا۔
ان ملاقاتوں میں اسرائیلی حکام نے امریکی سیاستدانوں کو یہ باور کرایا کہ اگر ترکی کو شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دیا گیا، تو اس سے نہ صرف شام کی سیاست بلکہ اسرائیل کے لیے بھی خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
لازمی پڑھیں: بی بی سی نے غزہ ڈاکیومنٹری پر معذرت کرلی، فلسطینی بچے کے والد کے تعلقات پر تنازعہ
اسرائیل نے اپنی پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک “وائٹ پیپر” تیار کیا جس میں شام کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اسرائیل کی تشویشات اور تجاویز شامل ہیں۔
یہ دستاویز امریکی حکام کو فراہم کی گئی تاکہ وہ اس معاملے میں اسرائیل کے نقطہ نظر کو سمجھ سکیں۔
دوسری جانب شام میں روس کا فوجی وجود اسرائیل کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ روس کے شام میں فوجی اڈے برقرار رہیں تاکہ ترکی کے اثرات کو کم کیا جا سکے۔
اس کے باوجود اسرائیل کی حکومت نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات میں محتاط رویہ اپنایا ہے، کیونکہ روس کے ساتھ اس کا تعاون ہمیشہ ایک توازن کی بنیاد پر رہا ہے۔
اسرائیل روس کی شام میں موجودگی کو ایک ذریعہ سمجھتا ہے، جو ترکی کے اثرات کو محدود کر سکتا ہے اور شام میں ایک متوازن طاقت کے طور پر کام کر سکتا ہے۔
شام میں اسلام پسند گروپوں کی موجودگی اسرائیل کے لیے ایک اور بڑا خطرہ ہے۔ اسرائیل کی جانب سے حیات تحریر الشام (HTS) جیسے گروپوں پر گہری نظر رکھی گئی ہے جو کہ ایک وقت میں القاعدہ کے ساتھ وابستہ تھے لیکن 2016 میں اس سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
ضرور پڑھیں: شمالی کوریا کا جدید کروز میزائل تجربہ: جوہری طاقت اور دفاعی عزم کا مظاہرہ
اسرائیلی حکام کا ماننا ہے کہ اگر شام میں ان گروپوں کی موجودگی بڑھتی ہے تو یہ اسرائیل کے لیے ایک سنگین چیلنج بن سکتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے حالیہ بیانات میں کہا ہے کہ اسرائیل جنوبی شام میں حیات تحریر الشام یا کسی بھی ایسی فورس کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا جو اسرائیل کے مفادات کے لیے خطرہ بن سکتی ہو۔
اسرائیل کے لیے سب سے بڑی سوالیہ بات یہ ہے کہ آیا امریکا ان کی درخواستوں کو تسلیم کرے گا یا نہیں۔
اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے شام کی پالیسی کو کم ترجیح دی ہے اور ابھی تک واضح طور پر اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ تاہم، امریکی سیاستدانوں کے درمیان اس بارے میں بحث جاری ہے کہ آیا شام میں امریکا کی فوجی موجودگی کو بڑھانا چاہیے یا اس سے باہر نکلنا چاہیے۔
ایران اور ترکی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی اور شام کی موجودہ حالت میں امریکا کی پالیسی خلا کے اثرات اسرائیل کے لیے تشویش کا باعث ہیں، کیونکہ یہ خلا اسرائیل کے موقف کو متاثر کر سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: میانمار کیمپ میں پھنسے غیر ملکیوں کے لئے مشکلات : وطن واپس جانے کے لئے رقم کی کمی کا سامنا
یہ صورتحال اسرائیل کی طرف سے شام میں اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک نیا حربہ ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ شام کمزور اور غیرمرکزیت ہو تاکہ اس کے اپنے مفادات کو خطرہ لاحق نہ ہو، اور اس کی سرحدیں محفوظ رہیں۔
اگر امریکا اس پوزیشن کو تسلیم کرتا ہے تو یہ شام میں روس کے اثر و رسوخ میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے اور ترکی کے اثرات کو محدود کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
اس وقت کے حالات میں اسرائیل کی پالیسی پر عملدرآمد کا دارومدار اس بات پر ہے کہ امریکا اس پوزیشن کو کتنی شدت سے اپناتا ہے اور شام میں مستقبل کی سیاسی تبدیلیوں کے اثرات کتنے گہرے ہوں گے۔