Follw Us on:

ٹرمپ کا امریکی سرکاری زبان کے طور پر انگریزی کو تسلیم کرنے کا تاریخی فیصلہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ٹرمپ کا امریکی سرکاری زبان کے طور پر انگریزی کو تسلیم کرنے کا تاریخی فیصلہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے جس کے تحت وہ انگریزی کو امریکا کی سرکاری زبان بنانے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے والے ہیں۔

یہ فیصلہ امریکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا قدم ہوگا۔ اس اعلان کے بعد سے امریکی سیاست میں ایک نیا تنازعہ شروع ہوگیا ہے جس پر مختلف آراء اور رائے زنی ہو رہی ہے۔

یہ اعلان ایک وائٹ ہاؤس کے عہدیدار نے جمعہ کے روز کیا۔ تاہم، اس بات کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا کہ یہ آرڈر کب دستخط کیا جائے گا۔

رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ “وال اسٹریٹ جرنل” میں شائع ہونے والی خبر کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکا نے کبھی بھی وفاقی سطح پر کسی زبان کو سرکاری زبان نہیں بنایا، حالانکہ کچھ امریکی ریاستیں انگریزی کو اپنے یہاں سرکاری زبان کے طور پر متعارف کرا چکی ہیں۔

ٹرمپ کا یہ فیصلہ ان کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے جس میں غیر قانونی امیگریشن کی مخالفت اور امریکی معاشرتی ساخت میں انگریزی زبان کو مرکزی حیثیت دینا شامل ہے۔

 2015 میں اپنے پہلے صدارتی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے اپنے حریف جیب بش کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ وہ دوسری زبانوں کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ “ہم ایک ایسی قوم ہیں جو انگریزی بولتی ہے۔”

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کا امریکا پر دباؤ: شام میں ترکی کے اثرات کم کرنے کے لیے روس کی فوجی موجودگی کی حمایت

ٹرمپ کے ‘ایگزیکٹو آرڈر’ کا مقصد سابق صدر بل کلنٹن کے دور میں کیے گئے فیصلے کو رد کرنا ہے جس کے تحت وفاقی اداروں اور ان اداروں کو فنڈز فراہم کرنے والے اداروں کو غیر انگریزی بولنے والوں کے لیے زبان کی مدد فراہم کرنی پڑتی تھی۔

اس آرڈر کا اطلاق ہونے کے بعد امریکا میں غیر انگریزی بولنے والوں کے لیے حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی زبان کی مدد ختم ہو جائے گی۔

اس پر مختلف ریاستوں اور سیاسی حلقوں میں ردعمل آنا شروع ہو چکا ہے۔ پرو انگلش نامی ایک تنظیم جو انگریزی کو سرکاری زبان بنانے کے لیے سرگرم ہے اس کے مطابق امریکا کی 32 ریاستیں پہلے ہی انگریزی کو سرکاری زبان قرار دے چکی ہیں۔

اس معاملے پر بحث و مباحثہ کی شدت خاص طور پر ان ریاستوں میں زیادہ ہے جہاں دوسری زبانیں بھی بڑے پیمانے پر بولی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ٹیکساس میں اسپینش زبان کا استعمال ایک متنازعہ موضوع رہا ہے۔

 2011 میں ایک ٹیکساس کے ریاستی سینیٹر نے ایک امیگریشن کے حقوق کے کارکن کو اپنے مادری زبان اسپینش میں بات کرنے پر سخت تنقید کی تھی۔

یہی نہیں، ٹیکساس جیسے ریاستوں میں جہاں ماضی میں اسپینش بولنے والوں کو سکولوں میں سخت سزا دی جاتی تھی، یہ مسئلہ جذباتی نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ بہت سے میکسیکن امریکی بزرگ یاد کرتے ہیں کہ 1950 کی دہائی میں اسپینش بولنے پر انہیں سزا دی جاتی تھی۔

ٹرمپ کے اس فیصلے کا پورے ملک میں گہرہ اثر پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں پر جو دوسری زبانیں بولتے ہیں اور جو امریکا میں مختلف ثقافتوں کا حصہ ہیں۔

اس فیصلے کو دیکھتے ہوئے ایک طرف یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ امریکا کی متنوع ثقافت کو نظرانداز کرنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ یا پھر یہ ایک قدم ہے امریکا کو مزید یکجہتی کی طرف لے جانے کی طرف؟

مزید پڑھیں: ٹرمپ کا میکسیکو، کینیڈا اور چین پر نئے ٹاررفز کا اعلان: فینٹینائل کے حوالے سے سخت اقدامات

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس