Follw Us on:

کیا ملکی قوانین واقعی سب شہریوں کے لیے یکساں ہیں؟

احسان خان
احسان خان

قوانین ریاست کے اقتدارِ اعلیٰ کا مظہر ہوتے ہیں، جن کی بنیاد پر افراد کے حقوق، ریاستی اداروں کے اختیارات اور معاشرتی نظم و ضبط کا تعین کیا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کو منظم کرنے کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں اور ان کے مؤثر نفاذ کے لیے ریاستی طاقت کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔

پاکستان کا آئین ایک تحریری دستاویز ہے جو قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی طے کرتا ہے اور شہریوں کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا وعدہ کرتا ہے، جن میں حقِ زندگی، مساوی اور منصفانہ قانونی حقوق، آزادی رائے، تعصب اور امتیازی سلوک سے آزادی اور تنظیم سازی جیسے حقوق شامل ہیں۔

پاکستان میں آئینی اور قانونی ڈھانچہ ہونے کے باوجود، ان قوانین پر مؤثر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے موجود ہونے کے باوجود، طاقتور طبقات اور غیرریاستی عناصر کا اثر و رسوخ انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ رول آف لاء انڈیکس کے مطابق پاکستان 140 ممالک میں سے 125ویں نمبر پر ہے، جو عدالتی اور قانونی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ تعلیم ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا تھا کہ نظریاتی طور پر آئین پاکستان ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے لیکن عملی طور پر اشرافیہ اور عام شہری کے لیے قوانین کے نفاذ میں واضح فرق ہے۔ اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اکثر قانونی سقم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ عام آدمی کو انصاف کے حصول کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں آئین تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتا ہے اور کسی بھی فرد کو رنگ، نسل، زبان، علاقائیت یا ذات پات کی بنیاد پر فوقیت حاصل نہیں، لیکن عملی طور پر دولت اور طبقاتی فرق کی وجہ سے انصاف کا معیار مختلف ہے۔ اگر امیر شخص کوئی جرم کرے، تو اسے طاقتور وکلاء، عدالتی رعایتوں اور سیاسی تعلقات کا فائدہ ملتا ہے، جب کہ غریب کو قانونی نظام کی پیچیدگیوں اور مہنگے عدالتی عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر فہد ملک کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا مسئلہ کیسز کی بھرمار اور ججز کی کمی ہے۔ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں جس کا سب سے زیادہ نقصان عام آدمی کو ہوتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ سے انصاف کا حصول مشکل اور بعض اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔

اگر کسی امیر شخص کی بیٹی کسی کو گاڑی تلے روند کر مار دے، تو اس کا ذہنی توازن کمزور قرار دے کر اسے بچا لیا جاتا ہے، جب کہ غریب شخص کو معمولی جرم میں بھی عدالتوں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ اس دوہرے نظام کی وجہ سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کمزور ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد مقدمات زیرِ التوا ہیں۔

ڈاکٹر فہد ملک نے کہا ہے کہ عدالتی نظام میں ہر شہری کو مساوی مواقع ملنے چاہئیں لیکن وکیلوں کی فیس، مقدمات میں تاخیر اور عدالتی پیچیدگیاں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول مشکل بنا دیتی ہیں۔ امیر طبقہ مہنگے وکیلوں اور قانونی چالاکیوں سے فائدہ اٹھا لیتا ہے جبکہ غریب کو برسوں تک فیصلے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پولیس کا بنیادی کام عوام کے جان و مال کی حفاظت اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنانا ہے، لیکن کئی مسائل اس نظام کی کارکردگی کو متاثر کر رہے ہیں۔

بدعنوانی اور سیاسی دباؤ کی وجہ سے اکثر پولیس طاقتور طبقے کے حق میں فیصلے کرتی ہے، جس سے انصاف کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے، ماورائے عدالت قتل، پولیس حراست میں تشدداور جھوٹے مقدمات جیسے مسائل عام ہیں، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔

ماہرِ تعلیم نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ پولیس کا نظام طاقتور افراد کے حق میں جھکاؤ رکھتا ہے۔ غریب آدمی کے ساتھ بدسلوکی اور سختی عام بات ہے جبکہ بااثر افراد کو وی آئی پی پروٹوکول دیا جاتا ہے۔ جب تک پولیس نظام میں اصلاحات اور احتساب نہیں ہوگا یہ تفریق ختم نہیں ہو سکتی۔

پاکستان میں آئین تمام شہریوں کو برابری کا حق دیتا ہے۔

پاکستان میں خواتین، اقلیتوں اور معذور افراد کے لیے قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر مؤثر عمل درآمد کے لیے ادارہ جاتی بہتری، عوامی آگاہی اور سماجی رویوں میں مثبت تبدیلی ناگزیر ہے، خواتین کے حقوق کو محفوظ بنانے کے لیے تحفظ خواتین ایکٹ 2006 اور انسدادِ ہراسانی ایکٹ 2010 نافذ کیے گئے ہیں، جبکہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 اور 36 میں کیا گیا ہے، لیکن ان قوانین پر عمل درآمد کے لیے معاشرے میں موجود تعصب اور امتیازی سلوک کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

ماہرِ انسانی حقوق ڈاکٹر شہزاد فرید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ پاکستان میں خواتین اور اقلیتوں کے لیے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد بہت کمزور ہے۔ غیرت کے نام پر قتل، جبری تبدیلیِ مذہب اور گھریلو تشدد جیسے مسائل میں اب بھی متاثرہ فریق کو مکمل انصاف نہیں ملتا۔

پاکستان کے قانونی نظام میں بہتری کے لیے اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، عدالتی نظام میں تیزی لانے کے لیے جدید کیس مینجمنٹ سسٹم متعارف کرایا جانا چاہیے، تاکہ مقدمات کے فیصلے جلد ہو سکیں، پولیس کو سیاست سے آزاد کر کے، بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں اور جدید تربیت دی جائے، تاکہ وہ غیرجانبدارانہ طور پر انصاف فراہم کر سکے۔

ڈاکٹر شہزاد فریدکے مطابق سب سے زیادہ اصلاحات عدالتی اور پولیس نظام میں درکار ہیں۔ فوری انصاف، کرپشن کا خاتمہ اور پولیس کی آزادی کو یقینی بنائے بغیر قانون کی حکمرانی قائم نہیں کی جا سکتی۔

غریب اور کمزور طبقات کو مفت قانونی مدد فراہم کی جائے، تاکہ وہ عدالتی کارروائی کے اخراجات کے بوجھ سے بچ سکیں۔ انسانی حقوق کمیشن کو مزید مضبوط بنا کر، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آزادانہ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔

جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک پر بات چیت کرتے ہوئے  ماہرِ انسانی حقوق کا کہنا تھا کہ غریب قیدیوں کو بدترین حالات میں رکھا جاتا ہے، جب کہ امیر قیدیوں کو ایئرکنڈیشنڈ کمرے، ٹی وی اور بہتر سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔ جیلوں میں بھی طبقاتی نظام ختم کرنے کے لیے سخت اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں قوانین کی موجودگی کے باوجود، ان کے مؤثر نفاذ میں شدید خامیاں ہیں۔ اگر عدلیہ، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے غیر جانبدار ہو کر کام کریں، تو ہر شہری کو انصاف تک یکساں رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔ قانونی نظام کو شفاف اور مضبوط بنانے سے ہی ملک میں مساوات، انصاف اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر شہزاد فرید نے انصاف کے یکساں نفاذ کے لیے حکومت کو تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے عدالتی اصلاحات کر کے مقدمات کا جلد فیصلہ یقینی بنایا جائے۔ دوسرا پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کیا جائے۔ تیسرا کرپشن کے خاتمے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں تاکہ عام آدمی کو بھی انصاف میسر آسکے۔

مزید یہ کہ شفافیت کے لیے آزاد عدلیہ، جدید ٹیکنالوجی کے استعمال، پولیس اصلاحات اور کرپشن کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ جب تک ان اداروں میں شفافیت نہیں آئے گی انصاف سب کے لیے یکساں نہیں ہو سکتا۔

اگرچہ پاکستان کے قانون و آئین میں تو غریب اور امیر کے لیے یکساں نظامِ عدل بنایا گیا ہے، مگر عملی طور پر انصاف محض سرمایہ کاروں کو ہی ملتا ہے۔ غریب اور متوسط طبقے کا ساتھ نہ ہی عدلیہ دیتی ہے اور نہ ہی حکومت، جس کی وجہ سے وہ یا تو ظالم سے پیسے لے کر خاموش ہو جاتا ہے یا پھر دباؤ میں آکر اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیتا ہے۔

احسان خان

احسان خان

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس