حکومتی سطح پر تمام تر کوششوں کے باوجود پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہو سکا ہے، جبکہ ملک کے تینوں صوبوں میں بلدیاتی الیکشن منعقد کیے جا چکے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں 10 سال سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے پر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’جمہوری حکومت نچلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے سے گریز کرتی ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن پنجاب میں تحریک انصاف کی مقبولیت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہے۔
پنجاب میں پہلے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے دور حکومت میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں کروا سکی، اب مسلم لیگ ن کی حکومت بھی اس حوالے سے قانون سازی نہیں کر سکی، جس پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے پنجاب میں فوری بلدیاتی انتخابات کروانے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
جماعت اسلامی نے لاہور ہائی کورٹ میں صوبے میں 90 دن کے اندر بلدیاتی انتخابات کروانے کے لیے درخواست دائر کر دی ہے۔ریکارڈ کے مطابق الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے تین مرتبہ حلقہ بندیاں کیں اور دیگر ضروری اقدامات اٹھائے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ’بدقسمتی سے کوئی بھی جمہوری حکومت بلدیاتی انتخابات کو ترجیح نہیں دیتی، لہٰذا موجودہ حکومت بھی اس معاملے پر سنجیدہ نہیں، البتہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات اگر ہوتے ہیں تو یہ الیکشن کمیشن کے احکامات پر ہوں گے۔
26 فروری 2025 کو الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ موجودہ صوبائی حکومت نے حکومت سنبھالتے ہی لوکل گورنمنٹ ایکٹ پر کام شروع کر دیا تھا

کیونکہ تمام شراکت داروں کی جانب سے رائے کا اظہار ضروری ہوتا ہے لہٰذا اب لوکل گورنمنٹ ایکٹ کا بنیادی مسودہ پنجاب اسمبلی میں ضروری قانون سازی کے لیے بھجوا دیا گیا ہے۔
پنجاب میں قائد حزب اختلاف ملک احمد خان بھچڑ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار ہیں، ہمارے امیدوار بھی طے ہیں لیکن حکومت بلدیاتی انتخابات کروانے سے اس لیے گریز کر رہی ہے کہ انہیں عوام کی حمایت نہ پہلے حاصل تھی نہ ہی اب لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔
جماعت اسلامی لاہور کے امیر ضیا الدین انصاری نے لاہور ہائی کورٹ میں جمعرات کو درخواست دائر کی کہ ’پنجاب میں بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے جا رہے۔
آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت بلدیاتی انتخابات کروانا لازمی ہے۔ جمہوری نظام میں گراس روٹ لیول پر اختیارات منتقل کیے جاتے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ ن کیا، کوئی بھی جمہوری حکومت نچلی سطح تک اختیارات منتقل کرنے کی حامی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔

ہائی کورٹ بارز کے حالیہ انتخابات میں لاہور، راولپنڈی سمیت کئی شہروں میں ن لیگ کے حامی امیدواروں کو شکست ہوئی، اسی طرح عوامی سطح پر ن لیگ کو پی ٹی آئی کے مقابلے میں حمایت حاصل نہیں۔ اس لیے حکومت خوفزدہ ہے کہ انہیں شکست نہ ہو جائے۔
تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ ’بدقسمتی سے جمہوریت کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعتیں نچلی سطح پر عوام کو آسانیاں دینے کی بجائے تمام اختیارات اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔
سلمان غنی کے مطابق اگر دیکھا جائے تو ماشل لا کے ادوار میں زیادہ بہتر اور بااختیار بلدیاتی حکومتیں کام کرتی رہیں۔
ان ادوار میں اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہوئے اور لوگوں کو ضلعی حکومتوں کی افادیت کا اندازہ ہوا۔موجودہ حکومت بھی کیونکہ سیاسی جماعت کی ہے اس لیے ان کی ترجیح بھی بلدیاتی نظام کی بجائے اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی سوچ دکھائی دیتی ہے۔