امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک بڑا قانونی چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔ جمعہ کے روز واشنگٹن ڈی سی کی وفاقی عدالت میں تین قومی ڈیموکریٹک کمیٹیوں نے ایک مقدمہ دائر کیا، جس میں ٹرمپ کے ایک حالیہ ایگزیکٹو آرڈر کو وفاقی انتخابی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت میں ان کے خلاف دائر ہونے والا پہلا بڑا قانونی اقدام ہے، جو اس وقت سامنے آیا ہے جب کانگریس میں اقلیت میں موجود ڈیموکریٹس ٹرمپ کی جانب سے کیے گئے وسیع پیمانے پر انتظامی اور قانونی تبدیلیوں کے خلاف مزاحمت کا راستہ تلاش کر رہے ہیں۔
ٹرمپ کا حکم، “بے مثال طاقت پر قبضہ” قرار
ڈیموکریٹس نے فروری 18 کو جاری کیے گئے ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر پر اعتراض اٹھایا ہے، جس کے تحت وائٹ ہاؤس کو نہ صرف فیڈرل الیکشن کمیشن بلکہ نیشنل لیبر ریلیشنز بورڈ، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور دیگر روایتی طور پر خودمختار اداروں پر زیادہ کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
یہ وہ ادارے ہیں جو عموماً صدر کے براہِ راست احکامات کے بغیر آزادانہ طور پر کام کرتے ہیں۔
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ اگر یہ حکم نافذ العمل رہا تو یہ انتخابی کمیشن کی غیرجانبداری کو مکمل طور پر سبوتاژ کر دے گا اور ٹرمپ کو انتخابی معاملات پر یکطرفہ فیصلے مسلط کرنے کا اختیار مل جائے گا۔
“سیاسی دھاندلی” روکنے کی کوشش
ڈیموکریٹک رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا نیا حکم بنیادی طور پر انتخابی کمیشن کے کردار کو بے اثر کرنے کے مترادف ہے، تاکہ وہ انتخابی تنازعات میں اپنی مرضی کے فیصلے کروا سکیں اور اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مہم چلا سکیں۔
مقدمے میں امریکی اٹارنی جنرل پام بونڈی، فیڈرل الیکشن کمیشن اور اس کے تین کمشنرز کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ترجمان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ زیرِ سماعت مقدمات پر تبصرہ نہیں کرتے۔
انتخابی کمیشن اور صدارتی دباؤ
مقدمے میں واٹرگیٹ اسکینڈل کے بعد بننے والے فیڈرل الیکشن کمیشن کے اصل مقاصد کو حوالہ دیا گیا ہے۔ ڈیموکریٹس کے مطابق، اس وقت کے ریپبلکن صدر جیرالڈ فورڈ نے بھی تسلیم کیا تھا کہ یہ کمیشن انتخابی عمل کی غیرجانبداری یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
لیکن اب ٹرمپ کا حکم اس بنیادی اصول کو نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے وہ ایک “سیاسی جانبدار شخصیت” کے طور پر کمیشن کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر “Ensuring Accountability for All Agencies” کے تحت صدر ٹرمپ اور اٹارنی جنرل پام بونڈی کے قانونی مؤقف کو تمام وفاقی اداروں کے لیے حتمی اور لازم قرار دیا گیا ہے۔کسی بھی سرکاری
جبکہ ملازم کو ایسے خیالات یا مؤقف کی ترویج سے روکا گیا ہے جو ٹرمپ کے ایجنڈے سے متصادم ہوں۔
مقدمے میں شامل ڈیموکریٹک کمیٹیاں
یہ مقدمہ تین بڑی ڈیموکریٹک کمیٹیوں نے دائر کیا ہے، جن میں شامل ہیں:
ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی
ڈیموکریٹک سینیٹرئیل کمپین کمیٹی
ڈیموکریٹک کانگریشنل کمپین کمیٹی
ان کمیٹیوں کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ کا حکم پہلے ہی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہا ہے، کیونکہ اس کے باعث ڈیموکریٹک سینیٹرئیل کمیٹی کو 2024 کے انتخابی مہم کے دوران ریپبلکن سینیٹر ٹیڈ کروز کی مہم کے خلاف شکایات کے دفاع میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈیموکریٹس نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ انتخابی کمیشن کو “صدارتی دباؤ اور کنٹرول” سے تحفظ دینے کے متعلقہ وفاقی قانون کو آئینی قرار دیا جائے اور ٹرمپ کے فروری 18 کے ایگزیکٹو آرڈر کو فوری طور پر منسوخ کیا جائے۔
کیا یہ قانونی جنگ ٹرمپ کے اختیارات محدود کر سکے گی؟
ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے دوران یہ مقدمہ ان کے اختیارات کو چیلنج کرنے کی پہلی بڑی کوشش ہے۔ اگر عدالت نے ڈیموکریٹس کے حق میں فیصلہ دیا تو یہ ٹرمپ کی انتظامی طاقت کو محدود کر سکتا ہے، تاہم اگر ٹرمپ جیت گئے تو اس کے اثرات آئندہ صدارتی انتخابات تک جا سکتے ہیں۔
یہ کیس امریکی سیاست میں ایک نئے تنازع کا آغاز ثابت ہو سکتا ہے، جس پر دونوں جماعتیں اپنی آئندہ حکمتِ عملی ترتیب دے رہی ہیں۔