اسرائیل نے غزہ میں جنگ بندی میں چھ ہفتوں کی عارضی توسیع کی منظوری دے دی ہے، جو رمضان اور یہودی فسح کے دوران جاری رہے گی۔ یہ فیصلہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے ختم ہوتے ہی کیا گیا۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مطابق، یہ توسیع امریکی صدر کے ایلچی اسٹیو وٹ کوف کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے کا حصہ ہے۔ منصوبے کے تحت، پہلے دن فلسطینی مزاحمتی گروہ حماس کے زیرِ حراست نصف یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا، جن میں زندہ اور مردہ دونوں شامل ہیں۔ اگر مستقل جنگ بندی کا معاہدہ طے پاتا ہے تو باقی یرغمالیوں کو بھی چھوڑ دیا جائے گا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس نے اب تک اس معاہدے کو قبول نہیں کیا، لیکن اگر وہ اپنا فیصلہ بدلے تو اسرائیل مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ نیتن یاہو نے چار گھنٹے طویل میٹنگ کے بعد اس فیصلے کی توثیق کی۔
امریکی منصوبے کے مطابق، اسرائیل کے پاس 42 دن کا وقت ہوگا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوں تو وہ دوبارہ جنگ شروع کر سکے۔ دوسری طرف، فلسطینی حکمران جماعت حماس کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے اور قیدیوں کی مکمل رہائی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔

فلسطینی حکمران جماعت حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ امریکی، قطری اور مصری ضمانتوں کے بغیر اس معاہدے میں مزید توسیع قبول نہیں کرے گی۔
پہلے مرحلے میں، جو 19 جنوری کو نافذ ہوا تھا، حماس اور اسرائیل کے درمیان 15 ماہ سے جاری جنگ روک دی گئی تھی۔ اس معاہدے کے تحت 33 اسرائیلی اور 5 تھائی یرغمالیوں کو 1,900 فلسطینی قیدیوں کے بدلے رہا کیا گیا تھا۔
دوسرے مرحلے کے مذاکرات ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے ہیں، جس میں باقی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا شامل ہے۔ اطلاعات کے مطابق، 24 یرغمالی زندہ ہیں، جب کہ 39 کے ہلاک ہونے کا خدشہ ہے۔