Follw Us on:

روس کا شام میں فوجی اڈوں کو برقرار رکھنے کے لیے جوئے کا کھیل

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
روس کا شام میں فوجی اڈوں کو برقرار رکھنے کے لیے جوئے کا کھیل

روس کے ‘حمیمیم ایئر بیس’ اور ‘طرطوس نیول بیس’ شام میں اس کے فوجی اثر و رسوخ کا ستون سمجھے جاتے ہیں لیکن بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ان اڈوں کی حیثیت اب سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔

کچھ ماہ قبل تک روسی فوجی ان بیسز سے نہ صرف شامی شہر میں آزادانہ گھومتے تھے بلکہ ان کے جنگی طیارے بھی باغی گروپوں کے خلاف کارروائیاں کرتے تھے۔

تاہم، اسد کے زوال کے بعد اب یہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ اس وقت حمیمیم اور طرطوس کے اڈوں کی حفاظت سابق باغی گروپوں کے ہاتھوں میں ہے جو اب اسلام پسند گروہ “حیات تحریر الشام” کے طور پر معروف ہیں۔

یہ نئے محافظ روسی قافلوں کو بیس سے باہر جانے کی اجازت دیتے ہیں، لیکن اس سے قبل ان کو اطلاع دینی پڑتی ہے اور اس کے بعد ہی انہیں باہر جانے کی اجازت ملتی ہے۔

اب روسی اڈوں کی موجودگی کا انحصار شام کے عبوری صدر احمد الشرع کے ہاتھوں میں ہے۔ روس کے ساتھ 49 سالہ طویل مدت کی لیز پر بات چیت کرنے کے دوران، شرعہ نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ روسی فوجی اڈوں کی موجودگی کے بدلے بہتر شرائط چاہتے ہیں۔ لیکن وہ روس کو شام میں مکمل طور پر باہر کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔

احمد نے روس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شامی حکومت کی جنگی نقصانات کا ازالہ کرے اور شام کے وہ مالی وسائل واپس کرے جو اسد حکومت نے روس میں جمع کیے تھے۔

مزید پڑھیں: مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ کی عظیم الشان مساجد میں اعتکاف کی رجسٹریشن کااعلان ہو گیا

روس کا شام میں اثر و رسوخ صرف فوجی نہیں ہے بلکہ یہ ایک تجارتی اور اقتصادی مسئلہ بھی ہے۔ شام جنگ کی تباہی کا شکار ہے اور اس کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔

روس کے لیے شام میں موجودگی صرف ایک فوجی فائدہ نہیں بلکہ یہ سیاسی و اقتصادی مفادات کے حصول کا بھی ایک ذریعہ ہے۔

شامی حکومت کا یہ ماننا ہے کہ روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر کے وہ عالمی سطح پر اپنی موجودگی برقرار رکھ سکتے ہیں اور اقتصادی امداد حاصل کر سکتے ہیں۔

اسی دوران، امریکا اور یورپی ممالک شام پر اپنے اثرات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکا کے لیے اس وقت روس کی شامی حکومت میں اہمیت کم کرنا ایک اہم مقصد بن چکا ہے۔

اس کے علاوہ اسرائیل بھی چاہتا ہے کہ روس شام میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے تاکہ ترکی کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کیا جا سکے۔

شام کی تباہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی تعمیر نو کے لیے کم از کم 400 ارب ڈالر کی ضرورت ہے، جو اقوام متحدہ کے ادارے “ایس سی ڈبلیو اے” کے مطابق ضروری ہے۔

اس کے باوجود، روس کی جانب سے اس تباہی کے لیے مکمل طور پر ذمہ داری قبول کرنے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، وہ اس تباہی کا کچھ حصہ بحالی کی شکل میں امداد کے طور پر فراہم کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مصر کا غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ: فلسطینی حقوق کے تحفظ کی مضبوط کوشش

شام کی نئی حکومت کے ساتھ روس کی بات چیت کا تسلسل اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔

روس شام کی تعمیر نو میں شریک ہو کر اپنے مفادات کو مزید مستحکم کر سکتا ہے، جبکہ شام روسی امداد اور حمایت کی بدولت عالمی برادری میں اپنے قدم جمانا چاہتا ہے۔

روس کے لیے شام میں اپنے فوجی اڈوں کی موجودگی نہ صرف اس کے مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کا سنگ میل ہے بلکہ یہ اس کے عالمی سیاست میں بھی اہمیت رکھتا ہے۔ تاہم، اس بات کا فیصلہ شام کے عبوری حکام کے ساتھ روسی مذاکرات کے نتیجے میں کیا جائے گا، جہاں وہ اپنی موجودگی کے بدلے مالی اور سیاسی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔

روس کی شام میں موجودگی کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں ممالک کس حد تک ایک دوسرے کے مفادات کے لیے سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ روس نے اس مرحلے پر شام میں اپنی حکمت عملی کو لچکدار رکھا ہے، اور اب وہ شام کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ اس کی سیاسی موجودگی کو مضبوط کیا جا سکے۔

اس پیچیدہ صورت حال میں، روس کے لیے اہم ہوگا کہ وہ شام کے نئے حکام کے ساتھ تعلقات کو بحال رکھنے میں کامیاب ہو سکے۔

مزید پڑھیں: روس کی جانب سے ٹرمپ کی تعریف اور یورپ کو جنگ کا ایندھن قرار دیا

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس