Follw Us on:

“یوکرین معاہدہ کرے یا صدر زیلنسکی مستعفی ہو”امریکہ کا دو ٹوک موقف

حسیب احمد
حسیب احمد
American president trump
یورپی رہنماوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی کا پرتپاک استقبال اور بھرپور اظہار یکجہتی کیا (تصویر، گوگل)

امریکی صدر ٹرمپ سے وائٹ ہاوس میں سخت جملوں کے تبادلوں کے بعد یورپی رہنماوں نے یوکرینی صدر زیلنسکی کا پرتپاک استقبال اور بھرپور اظہار یکجہتی کیا ہے جبکہ امریکہ نے یوکرین پر زور دیا ہے کہ وہ معاہدے کو یقینی بنائے یا پھر صدر زیلنسکی عہدے سے مستعفی ہوں۔

یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹی کے اہم سوال پر 18 یورپی اتحادی جمع ہوئے، یہ اجتماع اس وقت مزید اہم ہوگیا تھا، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کو وائٹ ہاؤس میں غیر معمولی طور پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

یوکرین اور یورپی ممالک کے سامنے زیلنسکی کے ساتھ بیٹھے اجلاس کے میزبان کیئر اسٹارمر نے کہا کہ یہ یورپ کی سلامتی کے لیے ایک نسل میں ایک بار کا لمحہ ہے، اور ہم سب کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے یوکرین کے صدر سے کہا کہ اُمید ہے کہ آپ جانتے ہوں گے کہ ہم سب آپ کے اور یوکرین کے عوام کے ساتھ ہیں، اس میز پر موجود ہر کوئی آپ کے ساتھ ہے، جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوجاتا۔

زیلنسکی کو اسٹارمر، کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور نیٹو کے سربراہ مارک روٹ سمیت 18 دیگر سرکردہ رہنماؤں میں سے کچھ نے گلے لگایا، جبکہ اس دوران مظاہرین نے یوکرین کی حمایت میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر ریلی نکالی۔

یہ مناظر جمعے کے روز واشنگٹن میں ٹرمپ کے ساتھ زیلنسکی کی غیر معمولی طور پر گرما گرم ملاقات کے بالکل برعکس تھے، جہاں امریکی صدر نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ان پر روس کے ساتھ امن کے لیے ’تیار‘ نہ ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

لندن میں اس اجلاس سے قبل خطاب کرتے ہوئے کیئر اسٹارمر نے کہا کہ کوئی بھی اوول آفس کے تصادم جیسے مناظر نہیں دیکھنا چاہتا، ہمیں ایک ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا کہ ہم سب مل کر کام کرسکیں، 3 سال تک خونی لڑائی ہوئی ہے۔

اسٹارمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمیں دیرپا امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں اسٹارمر سے ان کے گھر میں ملیں تو انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم ہے کہ ہم اس خطرے سے بچیں جو مغرب کو تقسیم کرتا ہے۔

جہاں یوکرین کے اتحادی ان بڑھتے ہوئے خدشات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے پختہ عزم کا اعادہ کر رہے ہیں کہ ٹرمپ روس کے ساتھ مذاکرات میں کیف کو مختصر طور پر فروخت کرنے والے ہیں، وہیں واشنگٹن کے اعلیٰ حکام نے اتوار کے روز مشورہ دیا کہ اگر امن معاہدہ طے پاتا ہے تو زیلنسکی کو مستعفی ہونا پڑ سکتا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز نے ’سی این این‘ کو بتایا کہ ہمیں ایک ایسے رہنما کی ضرورت ہے جو ہمارے ساتھ معاملات طے کر سکے، بالآخر روسیوں سے نمٹ سکے اور اس جنگ کو ختم کر سکے۔

اور اگر یہ واضح ہو جائے کہ صدر زیلنسکی کے ذاتی محرکات یا سیاسی محرکات اس ملک میں لڑائی کے خاتمے سے مختلف ہیں، تو میرے خیال میں ہمارے سامنے ایک حقیقی مسئلہ ہے۔

۔ایوان نمائندگان کے اسپیکر مائیک جانسن کا کہنا تھا کہ ’یا تو زیلنسکی ہوش میں آئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر بات کرے، یا کسی دوسرے کو ایسا کرنے کے لیے یوکرین کی قیادت کرنے کی ضرورت ہے

اس حوالے سے سینئر ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ ٹرمپ خطرناک حد تک روس کو گلے لگانے کے قریب پہنچ چکے ہیں، ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر کرس مرفی کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس کریملن کا بازو بن چکا ہے۔

تاہم وزیر خارجہ مارکو روبیو نے زور دے کر کہا کہ وائٹ ہاؤس پیوٹن کے روس کے بارے میں واضح ہے، یہاں کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ ولادیمیر پیوٹن کو اس سال امن کا نوبل انعام دیا جائے گا۔

روبیو نے کہا کہ امن کے حصول کے لیے پہلا قدم فریقین کو مل کر بات چیت پر مجبور کرنا ہے، آپ اس وقت تک جنگ ختم نہیں کر سکتے جب تک کہ دونوں فریق مذاکرات کی میز پر نہ آ جائیں۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس