ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں دیگر صنعتوں میں انقلاب برپا کیا ہے، وہیں اب باورچی خانے میں بھی جدید مشینری کا دور شروع ہو چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت کے ذریعے کھانے پکانے کی صنعت میں حیرت انگیز تبدیلیاں آ رہی ہیں اور اب ایسا ممکن ہو چکا ہے کہ فرائنگ یعنی تلنے کا عمل انسانی محنت کے بغیر، ایک خودکار روبوٹ کے ذریعے مکمل ہو سکے۔
بین الاقوامی سطح پر روبوٹک فوڈ فرائی تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، جہاں خودکار مشینیں کھانے کو تلنے کے تمام مراحل خود انجام دیتی ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی خاص طور پر فاسٹ فوڈ انڈسٹری کے لیے نہایت فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے، جہاں معیار، تیزی اور لاگت کی بچت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔
جدید روبوٹک مشینیں نہ صرف تیل کا درجہ حرارت خود کنٹرول کرتی ہیں بلکہ کھانے کو مخصوص وقت کے بعد خود بخود نکال لیتی ہیں، تاکہ ہر مرتبہ یکساں ذائقہ اور معیاری خوراک فراہم کی جا سکے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خودکار نظام سینسرز اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے چلتا ہے، جس کے ذریعے کھانے کے ہر ٹکڑے کو یکساں تلنے کے لیے روبوٹ مخصوص مقدار میں خوراک کو فرائنگ مشین میں ڈالتا ہے۔ اس کے بعد سینسرز تیل کے درجہ حرارت کو مانیٹر کرتے ہیں تاکہ کھانے کی کوالٹی برقرار رہے۔
روبوٹ کا بازو خود بخود کھانے کو تلتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد خود نکال کر پیش کرتا ہے، ساتھ ہی اضافی تیل کو فلٹر کر کے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔
روبوٹک فوڈ فرائی کے بے شمار فوائد ہیں۔ ایک تو یہ روایتی طریقوں کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ تیزی سے کام کرتا ہے، دوسرا یہ کہ ہر مرتبہ کھانے کا معیار اور ذائقہ یکساں رہتا ہے، جس سے کسٹمرز کو ایک جیسا تجربہ حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ریستوران مالکان کے لیے بھی یہ ایک بہترین حل ہے کیونکہ اس سے مزدوری کے اخراجات کم ہو جاتے ہیں اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایک اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ چونکہ روبوٹ کام کرتا ہے، اس لیے باورچی خانے میں جلنے یا کسی حادثے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔ ساتھ ہی، چونکہ مشین تیل کو مؤثر طریقے سے استعمال کرتی ہے، اس لیے تیل کا ضیاع بھی کم ہوتا ہے، جو ماحولیاتی فوائد کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔
پاکستان میں فاسٹ فوڈ انڈسٹری تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور کئی بڑے برانڈز جدید ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں روبوٹک کچن کے متعارف ہونے کے امکانات روشن ہیں، جہاں خودکار نظام کے ذریعے کھانے کی تیاری مزید آسان اور معیاری بنائی جا سکے گی۔
اگر سرمایہ کار اس ٹیکنالوجی میں دلچسپی لیں تو پاکستان میں بھی جلد ایسے ریستوران دیکھنے کو مل سکتے ہیں جہاں باورچی خانے میں انسانوں کے بجائے روبوٹ کام کر رہے ہوں گے۔