امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو اور کینیڈا پر 25 فیصد کے بھاری ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ نافذ العمل ہو گیا، جو ایک غیرمعمولی اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ اس اقدام کا مقصد امریکہ کے بڑے تجارتی شراکت داروں پر دباؤ ڈالنا ہے، تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق اس سے شمالی امریکہ کی مجموعی معیشت، بشمول خود امریکہ، شدید متاثر ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے خلاف بھی سخت رویہ اپناتے ہوئے وہاں سے درآمد ہونے والی تمام اشیاء پر ٹیرف کی شرح 10 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کر دی ہے۔ یہ نیا ٹیرف پہلے سے نافذ اربوں ڈالر کی چینی مصنوعات پر لاگو محصولات کے علاوہ ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے کینیڈا اور میکسیکو کو کافی وقت دیا تھا تاکہ وہ منشیات کی اسمگلنگ اور خطرناک گینگ سرگرمیوں کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کریں، مگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ لہٰذا، یہ تجارتی پابندیاں ناگزیر ہو چکی تھیں۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکی معیشت پہلے ہی عدم استحکام کا شکار ہے اور افراط زر ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ نئی تجارتی پابندیوں کے نتیجے میں ان اشیاء کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جو امریکہ ان ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ تجارتی اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ سال امریکہ نے کینیڈا، میکسیکو اور چین سے 1.4 ٹریلین ڈالر مالیت کی مصنوعات درآمد کیں، جو امریکہ کی کل درآمدات کا 40 فیصد بنتی ہیں۔
نئے ٹیرف کے تحت کینیڈا سے آنے والی زیادہ تر اشیاء پر 25 فیصد محصول عائد کیا گیا ہے، تاہم خام تیل جیسی توانائی سے متعلق اشیاء کو 10 فیصد کے کم ٹیرف کے تحت رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب، تازہ پھل، سبزیاں، گاڑیاں، آٹو پارٹس، الیکٹرانکس اور دیگر مصنوعات جو میکسیکو، چین اور کینیڈا سے درآمد کی جاتی ہیں، اب 20 سے 25 فیصد تک کے ٹیرف کا سامنا کریں گی۔
چین اور کینیڈا کا سخت ردعمل
بیجنگ نے منگل کے روز فوری جوابی کارروائی کرتے ہوئے امریکی مصنوعات پر نئے محصولات کا اعلان کر دیا۔ چینی اسٹیٹ کونسل ٹیرف کمیشن کے بیان کے مطابق، امریکہ سے درآمد ہونے والے چکن، گندم، مکئی اور کاٹن پر 15 فیصد کا نیا محصول لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، سویابین، گائے کا گوشت، دودھ، سمندری خوراک اور دیگر زرعی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف بھی لاگو کر دیا گیا ہے۔
چین کی وزارت تجارت نے ایک اور سخت اقدام کرتے ہوئے 15 امریکی کمپنیوں کو اپنی “برآمدی کنٹرول فہرست” میں شامل کر لیا، جن میں ڈرون بنانے والی کمپنی “اسکائیڈیو” بھی شامل ہے۔ اس فیصلے کے تحت، ان کمپنیوں کو چین سے دوہری استعمال والی ٹیکنالوجی یا آلات برآمد کرنے پر پابندی ہوگی۔
چین کی پارلیمنٹ “نیشنل پیپلز کانگریس” کے اجلاس سے قبل ایک پریس کانفرنس میں چینی ترجمان لو چِن جیان نے کہا کہ بیجنگ کسی بھی قسم کے دباؤ یا دھمکیوں کو قبول نہیں کرے گا اور وہ اپنی قومی خودمختاری، سلامتی اور اقتصادی مفادات کا بھرپور دفاع کرے گا۔
کینیڈا نے بھی واشنگٹن کے اس اقدام کے خلاف سخت ردعمل دیا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اعلان کیا کہ اوٹاوا فوری طور پر 30 بلین ڈالر مالیت کی امریکی اشیاء پر جوابی ٹیرف عائد کرے گا، جبکہ 25 مارچ تک مزید 125 بلین ڈالر کے امریکی سامان پر اضافی محصولات لگائے جائیں گے۔ ٹروڈو نے اپنے بیان میں کہا کہ کینیڈا اس “غیرمنصفانہ فیصلے” کا بھرپور جواب دے گا اور کسی بھی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا۔
امریکی معیشت پر ممکنہ اثرات
ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ یہ تجارتی جنگ امریکی معیشت کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب معیشت پہلے ہی کئی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔
امریکی بیورو آف اکنامک اینالیسس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق، جنوری میں صارفین کے اخراجات غیر متوقع طور پر کم ہوئے، جبکہ افراط زر کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ صارفین کا اعتماد بھی شدید متاثر ہوا ہے اور 2009 کے بعد پہلی بار نئے سال کے آغاز میں سب سے زیادہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ، بے روزگاری کے تازہ ترین اعداد و شمار بھی حوصلہ افزا نہیں ہیں۔ گزشتہ ہفتے بے روزگاری الاؤنس کے لیے درخواستیں توقع سے زیادہ بڑھ گئیں، جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہزاروں وفاقی ملازمین کی برطرفی نے مقامی معیشتوں میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے۔