Follw Us on:

سربیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی ‘دھواں گرینیڈ’ سے حکومت کے خلاف احتجاج

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
سربیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی 'دھواں گرینیڈ' سے حکومت کے خلاف احتجاج

سربیا کی پارلیمنٹ میں منگل کے روز ایک سنگین اور ہنگامی صورتحال پیدا ہوگئی، جب اپوزیشن ارکان نے حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے دھواں گرینیڈ اور آتشبازی پھینک دی۔

اس بدترین افراتفری کے دوران ایک قانون ساز کو فالج کا سامنا بھی ہوا، جس نے صورت حال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا۔

یہ واقعہ حکومت کے خلاف ایک طویل عرصے سے جاری احتجاجات کی شدید ترین صورت اختیار کر گیا ہے جو کہ صدر ‘الیگزینڈر وچچ’ کی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کر رہے ہیں۔

منگل کو سربیا کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے حکومت کے خلاف احتجاج کی صورت میں دھواں گرینیڈ اور آتشبازی پھینک کر ہنگامہ برپا کر دیا۔

پارلیمنٹ کے کمرے میں دھوئیں کی دھند چھا گئی اور کچھ ارکان نے جوتوں اور انڈوں سے حملہ کر دیا۔ اس حملے میں کئی اپوزیشن ارکان نے ایک بینر بھی لہرایا جس پر لکھا تھا کہ “سربیا اُٹھ کھڑا ہو، حکومت کو گرا دو۔”

مزید پڑھیں: اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ جاری رکھی تو اس کے تلخ انجام تک لڑیں گے، چین

اس صورتحال نے پارلیمنٹ کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا، اور اس دوران وہاں موجود سیکیورٹی گارڈز کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی۔

پارلیمنٹ کے اجلاس میں شدید کشیدگی کے باعث متعدد حکومتی اراکین زخمی ہوئے، جن میں تین ارکان سربیا کی حکومتی جماعت “سربیا کی ترقیاتی پارٹی” (SNS) کے شامل تھے، جن میں ایک حاملہ خاتون بھی شامل تھی۔

اس ہنگامے کے دوران، حکومتی جماعت کے ایک اہم قانون ساز یاسمینا اوبرادوویچ کو فالج کا سامنا کر گیا۔

ان کی حالت کی تشویشناک رپورٹیں سامنے آئیں، جس کے بعد وزیراعظم میلوش وُچِچ نے ہسپتال جا کر اوبرادوویچ کی عیادت کی۔

وُچِچ نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا کہ وہ اور پورا ملک اس مشکل وقت سے نکل آئیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا یوکرین کی فوجی امداد روکنے کا فیصلہ:عالمی رہنماؤں کا شدید ردعمل

یہ واقعہ سربیا میں طلبہ کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کے ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتا ہے جو گذشتہ کئی مہینوں سے حکومت کی پالیسیوں اور کرپشن کے خلاف مسلسل احتجاج کر رہے ہیں۔

نووی ساد شہر میں گزشتہ نومبر میں ریلوے اسٹیشن کی چھت کے گرنے سے 15 افراد کی موت واقع ہوئی تھی، جس نے حکومت کے خلاف غصے کو بڑھا دیا۔

اس سانحے نے حکومتی کرپشن اور غیر ذمہ داری کے خلاف ایک نیا محاذ کھول دیا، جس کے نتیجے میں پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

احتجاج کرنے والے افراد نے مظاہروں میں حصہ لیا اور حکومتی اعلیٰ سطحی اہلکاروں کے خلاف سخت نعرے بازی کی۔

لازمی پڑھیں: روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان

پارلیمنٹ میں اپوزیشن ارکان نے ہاتھوں میں وہ بینرز بھی اٹھا رکھے تھے جن پر “انصاف چاہیے” اور “مارے گئے افراد کے لئے انصاف” جیسے نعرے درج تھے۔

ان مظاہروں کا مقصد نہ صرف حکومتی احتساب تھا بلکہ عوامی سطح پر ایک پیغام بھی تھا کہ حکومت کے خلاف احتجاج کو دبانے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔

حکومتی سطح پر سربیا کے صدر الیگزینڈر وچِچ نے اپوزیشن کی جانب سے کیے گئے احتجاجات کو غیر ضروری اور غیر جمہوری قرار دیا۔

انہوں نے ان ارکان کو “دہشت گرد” قرار دیا، جو پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کے ذمہ دار تھے۔ تاہم، وزیر اعظم میلوش وُچِچ کی استعفیٰ دینے کے بعد بھی اپوزیشن کی طرف سے کوئی نرم رویہ دکھائی نہیں دیا۔

صدر وچِچ نے استعفیٰ دے کر مظاہرین کی ناراضگی کم کرنے کی کوشش کی تھی، لیکن مظاہرین نے اسے محض ایک سیاسی چال قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔

ضرور پڑھیں: ایران اور ترکیہ میں سفارتی کشیدگی، دمشق کی استحکام پر متنازع بیانات

سربیا کی سیاسی صورتحال میں جو سنگین بحران پیدا ہو چکا ہے، اس میں مزید کشیدگی کا امکان نظر آ رہا ہے۔ اپوزیشن ارکان پارلیمنٹ میں آنے والی تبدیلیوں کو حکومتی صفوں میں اصلاحات کے بجائے محض دھوکہ دہی سمجھتے ہیں۔

وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ حکومت کے خلاف حقیقی تبدیلی صرف جب ممکن ہوگی جب صدر وُچِچ کا اقتدار ختم ہو گا۔

پارلیمنٹ میں منگل کے روز ہونے والی ہنگامہ آرائی نے حکومتی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا ہے، اور مظاہرین کے لئے یہ ایک واضح پیغام ہے کہ وہ حکومتی رویوں میں تبدیلی کے بغیر احتجاج کو ختم نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: یورپی ممالک ’یوکرین امن منصوبہ‘ امریکا کو پیش کریں گے

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس