Follw Us on:

مصر کا عرب رہنماؤں سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے متبادل منصوبے پر زور

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
مصر کا عرب رہنماؤں سے غزہ کی تعمیر نو کے لیے متبادل منصوبے پر زور

مصر نے عرب رہنماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے “غزہ ریویرا” کے منصوبے کے بجائے، غزہ کی تعمیر نو کے لئے اپنے متبادل منصوبے کو اپنائیں۔

اس منصوبے کی لاگت 53 ارب ڈالرز ہے اور اس میں فلسطینیوں کی آبادکاری کی بجائے ان کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔

مصر کے صدر ‘عبدالفتاح السیسی’ نے قاہرہ میں جاری عرب سربراہ اجلاس میں کہا کہ وہ پُر امید ہیں کہ ٹرمپ فلسطینی مسئلے پر امن قائم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

تاہم، غزہ کے مستقبل کے بارے میں اہم سوالات اب بھی حل طلب ہیں خاص طور پر اس بات کا فیصلہ کہ غزہ کا نظم کون کرے گا اور اس کی دوبارہ تعمیر کے لیے مالی وسائل کہاں سے آئیں گے۔

مصر نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر غزہ کے انتظام کے لیے ایک آزاد اور ماہر فلسطینی افراد کی کمیٹی قائم کرنے کی تجویز دی ہے جو عارضی طور پر غزہ کے معاملات کی نگرانی کرے گی اور انسانی امداد کی تقسیم کرے گی۔

یہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی (PA) کی واپسی کی تیاری کرے گی۔

مزید پڑھیں: امریکا نے یمن کے حوثی باغیوں کو “دہشت گرد تنظیم” قرار دے دیا

صدر ‘محمود عباس’ نے اس مصری منصوبے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ امریکی صدر سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ اس منصوبے کی حمایت کریں، تاکہ فلسطینیوں کی نقل مکانی نہ ہو۔

عباس نے یہ بھی کہا کہ اگر حالات سازگار ہوئے تو فلسطینی صدر اور پارلیمانی انتخابات کرانے کے لئے تیار ہیں۔ ان کے مطابق، فلسطینی اتھارٹی ہی فلسطینی سرزمین کی واحد قانونی حکومت اور فوجی طاقت ہے۔

فلسطینی علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کے اقتدار میں کمزوری اور اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی وجہ سے عباس کی حیثیت متنازعہ ہو چکی ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کا خیال ہے کہ ان کی حکومت کرپٹ اور غیر جمہوری ہے۔

مصر کے اس تجویز کردہ منصوبے میں غزہ کی تعمیر نو کے لیے 53 ارب ڈالرز کی رقم درکار ہو گی جس میں ابتدائی طور پر 20 ارب ڈالرز کی لاگت سے 200,000 رہائشی یونٹس کی تعمیر شامل ہے۔ تاہم، اس کے لیے عرب خلیجی ممالک جیسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے مالی تعاون ضروری ہوگا۔

ان ممالک کے پاس وہ سرمایہ ہے جو غزہ کی مکمل تعمیر نو کے لیے درکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اگر ٹرمپ نے تجارتی جنگ جاری رکھی تو اس کے تلخ انجام تک لڑیں گے، چین

عرب امارات، جو حماس اور دیگر اسلامی شدت پسند گروپوں کو خطرہ سمجھتا ہے فوری طور پر حماس کے مکمل طور پر اسلحہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ دیگر عرب ممالک اس پر تدریجی طریقے سے عملدرآمد کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔

سعودی عرب کے قریبی ذرائع کے مطابق حماس کا غزہ میں موجودہ مسلح تسلط ایک بڑی رکاوٹ ہے، کیونکہ اسرائیل اور امریکا کی جانب سے اس پر سخت اعتراضات ہیں۔

دوسری جانب حماس کے سینئر رکن ‘سامی ابو زہری’ نے منگل کو اسرائیل اور امریکا کے مطالبات کو مسترد کیا، اور کہا کہ ان کا حق مزاحمت پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا۔

ابو زہری نے کہا کہ ان کی جماعت کسی بھی غیر فلسطینی انتظامیہ یا منصوبے کو قبول نہیں کرے گی اور غزہ میں غیر ملکی افواج کی موجودگی کو بھی مسترد کیا۔

اس وقت غزہ میں جاری جنگ میں حماس کے ہزاروں جنگجو مارے گئے ہیں، لیکن اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے کچھ چھوٹے گروہ اب بھی چھپ کر حملے کر رہے ہیں۔ اس دوران، غزہ میں 48,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر شہری شامل ہیں۔

مصر، اردن اور دیگر خلیجی عرب ممالک نے ایک ماہ سے زائد عرصہ سے ٹرمپ کے “غزہ ریویرا” کے منصوبے کے متبادل پر مشاورت کی ہے، جس میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور امریکی سرمائے سے غزہ کی تعمیر نو کا منصوبہ شامل تھا۔

اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے عرب ممالک کا ماننا ہے کہ اس سے پورے خطے میں مزید عدم استحکام پیدا ہو گا۔

مزید پڑھیں: سربیا کی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی ‘دھواں گرینیڈ’ سے حکومت کے خلاف احتجاج

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس