حالیہ چند ہفتوں میں ایلون مسک کی نگرانی میں کی جانے والی بڑے پیمانے پر برطرفیوں کے دوران کچھ امریکی سرکاری ملازمین جو اعلیٰ سیکیورٹی کلیئرنس رکھتے تھے، انہیں روایتی ایگزٹ بریفنگز فراہم نہیں کی گئیں۔
عالمی خبررساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق ان ملازمین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ اگر انہیں غیر ملکی حریفوں کی طرف سے رابطہ کیا جائے تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔
فوری طور پر برطرف کیے گئے یہ ملازمین، جنہیں “ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی” (DOGE) کے ذریعے فروری میں نکال دیا گیا تھا، ان کی برطرفی کے وقت سیکیورٹی کی اہمیت اور راز داری کی خلاف ورزی سے بچنے کے بارے میں روایتی “ریڈ آؤٹ” بریفنگز نہیں کی گئیں۔
اس کمی نے ان ملازمین کو ایسے خطرات میں ڈال دیا ہے جہاں وہ جو خفیہ معلومات رکھتے تھے جیسے جوہری ہتھیاروں کا انتظام، پاور گرڈ کا تحفظ، یا امریکی بین الاقوامی ترقیاتی عملے کی حفاظت غلط ہاتھوں میں جا سکتی ہیں۔
سیکیورٹی کلیئرنس رکھنے والے برطرف شدہ ملازمین کو عموماً آخری سیکیورٹی بریفنگ دی جاتی ہے جس میں انہیں ان کے دستخط کردہ غیر انکشاف کے معاہدوں کی یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی خفیہ معلومات کو افشا کرنا غیر قانونی ہے۔ تاہم، رائٹرز ان برطرف ملازمین کو کوئی بریفنگ نہیں دی گئی۔

یو ایس ایجنسی فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ(یو ایس اے آئی ڈی) کے ایک سابقہ سینئر افسر اور وزارت توانائی کے ایک ملازم نے رائٹرز کو بتایا کہ انہیں ایگزٹ بریفنگ نہیں دی گئی۔
اس کے علاوہ، قومی جوہری سیکیورٹی ایڈمنسٹریشن (این این ایس اے) میں کام کرنے والے کچھ ملازمین، جنہیں 14 فروری کو برطرف کیا گیا تھا، بھی سیکیورٹی بریفنگ سے محروم رہے، جنہیں جوہری اسلحہ کے انتظام اور دیگر حساس امور سے متعلق سیکیورٹی کلیئرنس حاصل تھی۔
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے سابقہ سی آئی اے افسر اور وکیل کیون کیرول نے اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کیا کہ اس طرح کی سیکیورٹی بریفنگز کی کمی امریکا کے لیے ایک “خطرناک جوابی انٹیلی جنس” مسئلہ بن سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب آپ پروگرام سے نکالے جاتے ہیں، تو آپ کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ آپ نے معلومات کو راز رکھنا قبول کیا ہے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ ایسپائوناژ ایکٹ کی خلاف ورزی کریں گے