رمضان المبارک کا مقدس مہینہ مسلمان دنیا بھر میں اپنی روحانیت اور عبادات کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہی مہینہ ہے جب امت مسلمہ خود کو اپنے رب کے قریب کرنے کی کوشش کرتی ہے جہاں قرآن کی تلاوت، نماز، اور صدقات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا رمضان کی یہ روحانی حقیقت ہمارے ٹی وی چینلز پر دکھائی دیتی ہے؟ رمضان ٹرانسمیشنز کے دوران چینلز کی بڑھتی ہوئی دلچسپی اور ان نشریات کے پیچھے چھپے مقاصد کیا ہیں؟
پاکستان کے ہر بڑے ٹی وی چینل نے رمضان کے مہینے میں خصوصی نشریات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان نشریات کا مقصد اسلامی تعلیمات کا فروغ اور سماجی فلاحی سرگرمیوں کو اجاگر کرنا ہے۔
ان نشریات میں مذہبی رہنماؤں، مشہور شخصیات اور اہل علم کے ذریعے قرآن و حدیث کی روشنی میں دینی موضوعات پر گفتگو کی جاتی ہے تاکہ ناظرین کو اپنے دین سے قریب کیا جا سکے۔
رمضان ٹرانسمیشنز میں نیکی اور خیرات کے رجحان کو بڑھانے کے لئے بھی پروگرامز پیش کیے جاتے ہیں۔ نعت خوانی، قرأت اور دیگر مذہبی مقابلوں کی حوصلہ افزائی کے ذریعے عوامی سطح پر روحانی ماحول پیدا کیا جاتا ہے۔
اس سب کے علاوہ ان پروگرامز میں سماجی فلاحی سرگرمیوں کا بھی اہتمام ہوتا ہے، جیسے غریبوں کی مدد، صدقات کی ترغیب، اور رمضان کے مقدس مہینے میں اسلامی اقدار کو اجاگر کرنا۔
لیکن جب ہم ان رمضان ٹرانسمیشنز کو بغور دیکھتے ہیں تو سوالات اُٹھتے ہیں کہ کیا یہ نشریات واقعی اپنی روحانی اہمیت کو برقرار رکھتے ہوئے معاشرتی اصلاح کی جانب قدم بڑھا رہی ہیں؟ یا پھر ٹی وی چینلز ان نشریات کو صرف ایک تجارتی حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں؟
ٹی وی چینلز کی جانب سے رمضان نشریات میں اشتہارات کی بھرمار اور مہنگے اسپانسرز کی شمولیت نے اس سوال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے مولانا ثناء اللہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ” ہمارے معاشرے میں اداکار مختلف کمپنیوں سے پیسے لے کر رمضان ٹرانسمیشن کے حوالے سے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ معاشرے کی اصلاح کی بجائے بیگاڑ کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اصلاح تو دور دور تک اس سے ممکن ہی نہیں ہے۔”
انکا مزید کہنا تھا کہ “اس میں چلنے والے اشتہارات خود بتاتے ہیں کہ یہ بکاو ہیں۔ کمپنیوں کا مال پیچنے کے لیے ساری بزم سجائی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے مسلمانوں کی ماؤں بہنوں اور بچوں کی عزت کو بیچا جاتا ہے۔”
پروگرامز کے دوران اشتہارات کا طویل دورانیہ، اور ریٹنگز کی دوڑ میں ان نشریات میں مذہبی مواد کی بجائے تفریحی اور کمرشل عناصر کی بھرمار، ایک تشویش کا سبب بن چکا ہے۔
رمضان کے روحانی پیغامات کے بجائے غریبوں کی مدد کے نام پر کاروباری ایجنڈے اور برانڈز کی تشہیر دیکھنے کو ملتی ہے۔
سٹی 42 نیوز چینل سے ایڈیٹر چوہردھری ندیم نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا “کہ رمضان ٹرانسمیشن میں اصول وضع شدہ ہیں بس ان پر عمل درآمد ہونا چاہیے۔ رمضان ٹرانسمیشن میں کوئی بھی ایسا پہلو نہیں ہونا چاہیے جو غیر شرعی اور غیر اسلامی ہو۔”
کیا واقعی یہ رمضان کی روح کے مطابق ہیں یا صرف تجارتی مفاد کا کھیل ہے؟
اگر ہم ان رمضان ٹرانسمیشنز کا جائزہ لیں تو ان میں غیر ضروری مواد کی بھرمار بھی ہے۔ گیم شوز اور انعامی مقابلے جہاں ایک طرف تفریح کا سامان فراہم کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کا رمضان کی عبادات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
چودھری ندیم کا مزید کہنا تھا کہ “ان ٹی وی چینلز نے رمضان ٹرانسمیشز کو تفریح مقاصد بنا دیا گیا ہے، وہاں لوگ ڈانس کر رہے یوتے ہیں، لیٹ رہے ہوتے ہیں، بعض تو نعتیں ایسی پڑھی جاتی ہیں جو شرک سے بھری ہوتی ہیں اور اس کے علاوہ عجیب و غریب سے مقابلے کروائے جاتے ہیں۔”
رمضان ٹرانسمیشنز کے ان مقابلوں میں آراء کے مطابق مبالغہ آرائی اور ڈرامائی عناصر بڑھا دیے جاتے ہیں جو اصل مقصد سے ہٹ کر صرف ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس پر مولانا ثنااللہ کا مزید کہنا تھا “کہ رمضان ٹرانسمیشن میں لوگوں کو انعامات کا لالچ دیا جاتا ہے۔ ان شوز کے دوران اکثر غیر شریعی کام کرنے کو کہا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “گیم شوز میں غیر شریعی پہلو ہیں جن کو اسلام میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔ ماضی میں مرحوم عامر لیاقت بھی ایک عورت کے ساتھ دوڑتے ہوئے گرے تھے اور کافی بدنام بھی ہوئے تھے۔”
انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ” اس وقت رمضان ٹرانسمیشن میں اسرائیلی برانڈز کی تشہیر کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس وقت ہم حالت جنگ میں ہیں۔ ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ انہیں کو ہی پیسہ کما کر دے رہے ہیں۔ اس لیے ان کا بائیکاٹ کرنا ہم پر فرض اور لازم ہو جاتا ہے۔”
دوسری جانب سحر و افطار کے اوقات میں مسلسل اشتہارات اور تجارتی مواد بھی اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ان نشریات کا مقصد کچھ اور نہیں بلکہ ریٹنگز اور پیسہ کمانا ہے۔
عوام کی رائے بھی اس معاملے میں دوہری ہے کیونکہ کچھ افراد ان نشریات کو اصلاحِ معاشرہ کا ایک اہم ذریعہ سمجھتے ہیں جبکہ دوسروں کا خیال ہے کہ ان نشریات میں صرف تجارتی عناصر کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے جو رمضان کی اصل روح کے خلاف ہے۔
چودھری ندیم نے اس پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “رمضان ٹرانسمیشن میں صرف ریٹنگ پر زور دیا جا رہا ہے اور کہا کہ اگر آپ ایکٹرز جیسے ‘وینا ملک’ یا جو خواتین اینکرز ہیں ان کو رنگ برنگے کپڑے پہنا کر بیٹھا دیں گے تو یہ کیا بکواس ہے؟ یہ سب رمضان المبارک کے ساتھ بہت بڑی شرارت ہے۔ جب اس ٹرانسمیشن کو میلا ٹھیلا بنا دیا جائے گا تو اسکا نتیجہ کیا ہو گا؟”
دوسری جانب نوجوانوں، خواتین، اور اسکالرز کی رائے بھی مختلف ہے، اور سوشل میڈیا پر ان نشریات کے حوالے سے مثبت اور منفی تبصرے دونوں دیکھنے کو ملتے ہیں۔
عوامی سطح پر اس بات پر بات ہو رہی ہے کہ کیا رمضان کی ٹرانسمیشن واقعی معاشرتی اصلاح میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں یا یہ صرف اشتہارات کی بے ہودہ تشہیر کا ایک ذریعہ بن چکی ہیں؟
اس بحث میں علما کرام اور میڈیا ماہرین کی رائے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ کیا رمضان کی ٹرانسمیشن کا اصل مقصد عبادت کی ترویج ہے یا یہ صرف ایک کاروباری حکمت عملی ہے؟
مولانا ثنااللہ نے پاکستان میٹرز سے گفتگو میں کہا کہ “علماء کو رمضان ٹرانسمیشن کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ ویسے بھی ان میں علماء نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اکثر علماء تو اس ٹرانسمیشن کے لیے نہیں جاتے۔ علماء کو رمضان ٹرانسمیشن کی پرزور مذمت بھی کرنی چاہیے۔”
اس پر چودھری ندیم نے کہا کہ ” انہوں نے کہا کہ انکا کہنا تھا کہ رمضان ٹرانسمیشن کے میزبان اور علماء اکرام سنجیدہ قسم کے ہونے چاہیں جو رمضان المبارک کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔”
اس صورتحال میں کچھ ضروری اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ رمضان ٹرانسمیشنز کا مقصد پوری طرح سے مفید ثابت ہو سکے۔
سب سے پہلے تو اشتہارات اور کمرشلائزیشن کو محدود کرنے کے لئے حکومتی سطح پر ضابطے بنائے جانے چاہئے۔ میڈیا ہاؤسز اور چینلز کو یہ سمجھنا ہوگا کہ رمضان کی نشریات کا مقصد صرف ریٹنگز نہیں بلکہ معاشرتی اصلاح بھی ہونا چاہئے۔
ایڈیٹر ندیم نے کہنا ہے کہ” یہ ایک خطرناک ٹرینڈ ہے اب اس کو روکا جانا لازم ہے”
عوام، علما کرام اور حکومت کو مل کر اس بات پر کام کرنا ہوگا کہ رمضان ٹرانسمیشنز میں مذہبی پیغامات کو واضح اور موثر طریقے سے پیش کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ ان نشریات کی کمرشلائزیشن اور غیر ضروری مواد کو کم کیا جائے۔