امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے نشریاتی ادارے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ کابل ایئرپورٹ حملے کے ماسٹرمائنڈ کی گرفتاری کے لیے امریکا نے پاکستان کو انٹیلی جنس معلومات فراہم کی تھیں، جس کی بنیاد پر پاکستان نے کارروائی کی۔ انہوں نے پاکستان کے تعاون پر شکریہ ادا کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ کارروائی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دوران ہوئی تھی۔
پیٹ ہیگسیتھ نے بتایا کہ امریکی قیادت، بشمول ڈائریکٹر ریٹکلف، سینٹ کام اور دیگر فوجی افسران، پاکستانی حکام کو مسلسل معلومات فراہم کر رہے تھے، جنہوں نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر گرفتاری میں مدد کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی حکام نے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں شریف اللہ کو گرفتار کیا، اس کی شناخت کی تصدیق کی، اور یہ پیش رفت کچھ دنوں پہلے سے معلوم تھی۔
امریکی وزیر دفاع کے علاوہ صدر ٹرمپ اور قومی سلامتی کے مشیر بھی اس حوالے سے پاکستان کے تعاون کو سراہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث افراد کو پکڑنے کا کام سابق صدر ٹرمپ کے دور میں شروع ہوا تھا، اور اس میں پاکستانی حکام نے کلیدی کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: “پاکستان میں دہشتگردوں کو بسانے پر باجوہ سے پوچھا جائے” خواجہ آصف
شریف اللہ کو 26 اگست 2021 کے کابل ایئرپورٹ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اس حملے میں 13 امریکی فوجیوں سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے تھے۔ انہیں پاکستان کی مدد سے گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کیا گیا، جہاں ورجینیا کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ایف بی آئی نے ان کی حوالگی کی تصدیق کرتے ہوئے دو مارچ کو ان کا انٹرویو کیا۔
ایف بی آئی کے ایجنٹ سیتھ پارکر کے مطابق، شریف اللہ 2016 سے داعش خراسان شاخ سے منسلک تھا اور مختلف دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہا۔ دورانِ تفتیش شریف اللہ نے اعتراف کیا کہ 20 جون 2016 کو کابل کے سفارت خانے پر خودکش حملے میں اس نے بمبار کو ہدف کے مقام تک پہنچایا تھا۔ حملہ آور کا نام عرفان تھا، اور شریف اللہ نے اسے مکمل مدد فراہم کی تھی۔
یہ واقعہ امریکا اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی کے معاملات میں قریبی تعاون کی ایک مثال ہے، جو دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت کارروائیوں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔
امریکی صحافی ریان گرِم نے سماجی رابطے کی ایپلیکیشن ایکس پر ٹویٹ کیا کہ “آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ سی آئی اے اور پاکستان کی فوج نے صرف ٹرمپ کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ انہوں نے اس آدمی کو پکڑا جس نے کابل ایئرپورٹ پر بمباری کی۔ سی آئی اے پاکستانی حکومت کو ایسے اہلکاروں کے خلاف سہارا دینے کی شدت سے کوشش کر رہی ہے جو کہتے ہیں کہ وہاں جمہوریت کی بحالی امریکہ کے مفاد میں ہے۔”