پاکستانی معیشت گزشتہ ایک عرصے سے مختلف مسائل سے گھری ہوئی ہے، جن میں مالیاتی خسارہ، کمزور زر مبادلہ کے ذخائراور بڑھتی ہوئی مہنگائی شامل ہیں۔ ان مسائل نے ملکی معیشیت کو اس قدر محتاج کیا ہے کہ ملک کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے کا لائحہ عمل آئی ایم ایف بنا تا ہے۔
دوسرے ممالک آئی ایم ایف سے قرض لیتے ہیں، تاکہ ملکی معیشیت مستحکم ہو، مگر پاکستان میں متعدد بار بار پچھلے قرض کی ادائیگی کے لیے نیا قرض لیا گیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان تعلقات کی تاریخ طویل ہے۔ 1958 سے اب تک پاکستان نے 23 مرتبہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیجز حاصل کیے ہیں۔
2024 میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے 37 ماہ پر مشتمل قرض پروگرام پر اتفاق ہوا، جس کا مقصد معیشت کو استحکام دینا تھا۔
حکومت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ آئی ایم ایف پروگرام معیشت کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے اور اس سے مالیاتی استحکام حاصل ہوگا، جس سے اس سوال نے جنم لیا ہے کہ کیا آئی ایم ایف سے نئی قسط نہ لے کر پاکستان اپنی معیشیت کو سنبھال سکتا ہے؟
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرِ معاشیات ڈاکٹر جہانزیب نے کہا کہ اگر حکومت سخت مالیاتی اصلاحات، برآمدات کے فروغ اور محصولات میں اضافے پر کام کرتی ہے تو آئی ایم ایف کی قسط کے بغیر بھی معیشت سنبھل سکتی تھی۔ تاہم کمزور مالیاتی نظم و ضبط اور درآمدی انحصار کے باعث حکومت کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اس معاہدے کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ یہ معیشت کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، مگر عوامی سطح پر ان شرائط پر مہنگائی اور روزمرہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سےتشویش پائی جاتی ہے۔
ستمبر 2024 میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کی منظوری دی تھی ، جس میں سے 1 ارب ڈالر کی پہلی قسط فوری جاری کی گئی۔ یہ قرض 37 ماہ کی مدت پر محیط ہے اور اقساط میں جاری کی جائے گی۔
ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ نئی شرائط سے عوام پر مہنگائی کا مزید دباؤ بڑھے گا۔ سبسڈی میں کمی سے بجلی، گیس اور پٹرول مہنگا ہوگا۔ کاروباری طبقے کو بلند شرحِ سود اور زیادہ ٹیکسوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے سرمایہ کاری کے مواقع محدود ہو سکتے ہیں۔
3 مارچ کو پاکستان کو 7 ارب ڈالر بیل آؤٹ پیکج میں سے ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط کی ادائیگی کے حوالے سے اقتصادی جائزے کے لیے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان پہنچا، جہاں سیکرٹری خزانہ کی سربراہی میں وفد نے آئی ایم ایف حکام سے ملاقات کی اور امور پر بات چیت کی گئی۔
آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس نیٹ میں توسیع، توانائی کے شعبے میں اصلاحات اور مالیاتی خسارے میں کمی شامل ہیں۔ حکومت نے زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا وعدہ کیا ہے۔
اس کے علاوہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور سبسڈی میں کمی کی شرائط بھی شامل ہیں۔
ان شرائط کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ اور عوام کی قوت خرید میں کمی کا خدشہ ہے، لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات معیشت کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔
ماہرِ معاشیات پروفیسر امبرین احمد کے مطابق اگر حکومت ٹیکس نیٹ بڑھائے، غیر ضروری درآمدات کم کرے، برآمدات کو فروغ دے اور زراعت و صنعتی شعبے کو ترقی دے تو آئی ایم ایف پر انحصار کم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے سخت پالیسی فیصلے کرنے کی ضرورت ہوگی۔
آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد روپے کی قدر میں استحکام دیکھا گیا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے سے روپے پر دباؤ کم ہوا ہے۔
ماہرِ معاشیات نے کہا ہے کہ مسلسل قرض لینا خطرناک ہے کیونکہ اس سے خودمختاری محدود ہو جاتی ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ ناگزیر تھا۔ مسئلہ قرض لینا نہیں بلکہ اس کا درست استعمال نہ ہونا ہے۔ اگر قرض ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہو تو معیشت کو فائدہ ہو سکتا ہے۔
توانائی کی قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی میں کمی کے باعث مہنگائی میں اضافہ متوقع ہے۔ آئی ایم ایف نے بھی خبردار کیا ہے کہ مہنگائی ہدف سے زیادہ رہ سکتی ہے۔
امبرین احمد کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبات میں زیادہ تر ٹیکس اصلاحات شامل ہوتی ہیں۔ لہٰذا بجٹ میں مزید ٹیکسز اور سبسڈی میں کمی کا قوی امکان ہے۔ بجلی اور گیس پر سبسڈی کم ہونے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
مہنگائی میں اضافے سے عام شہریوں کی قوت خرید متاثر ہو سکتی ہے، جس سے روزمرہ زندگی میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
ڈاکٹر جہانزیب نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ سکتا ہے کیونکہ حکومت کو کرنسی کو مصنوعی سہارا دینے سے روک دیا جائے گا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی اور خاص طور پر درآمدی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ٹیکس نیٹ میں توسیع اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے سے کاروباری طبقے کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ زراعت اور تعمیرات کے شعبوں پر ٹیکس عائد کرنے سے ان شعبوں میں سرمایہ کاری متاثر ہو سکتی ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام سے معیشت میں استحکام کی توقع ہے، جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ کر سکتا ہے۔ تاہم سخت شرائط اور مہنگائی میں اضافے سے سرمایہ کاری کے فیصلوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
پروفیسر امبرین احمد کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے نئے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے جیسے آئی ٹی برآمدات، زرعی اصلاحات، اور نجکاری کے ذریعے سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنا۔ اس سے قرضوں کے بوجھ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔
نجی سیکٹر کو ٹیکس اصلاحات اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اپنی حکمت عملیوں میں تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سبسڈی میں کمی کے باعث بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا، جس سے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بھی بڑھ سکتی ہیں۔
حکومت نے ٹیکس نیٹ میں توسیع کا وعدہ کیا ہے، جس سے مختلف شعبوں پر ٹیکس بڑھائے جائیں گے۔ حکومت نے ابھی تک عوام کے لیے کسی خاص ریلیف پیکج کا اعلان نہیں کیا ہے، جس سے عوامی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
پروفیسر امبرین احمد کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہو سکتی ہے اور سرمایہ کاروں کو اعتماد ملے گا۔ لیکن بار بار قرض لینا عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے پاکستان کی کمزور معیشت کو ظاہر کرتا ہے جو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر جہانزیب کے مطابق حکومت کے پاس عوام کو فوری ریلیف دینے کی گنجائش کم ہے کیونکہ بجٹ خسارہ پہلے ہی زیادہ ہے۔ مزید ٹیکسز اور سبسڈی میں کمی کے امکانات زیادہ ہیں۔ تاہم اگر حکومتی اخراجات کم کیے جائیں تو کچھ حد تک ریلیف ممکن ہو سکتا ہے۔
ملکی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتِ پاکستان ان مسائل پر توجہ دے اور ایسی اقدامات کرے جن سے ملکی معیشیت مستحکم ہو۔
پروفیسر امبرین کے مطابق پاکستان کو قرضوں سے نکلنے کے لیے پیداواری صلاحیت میں اضافہ، مقامی صنعتوں کی ترقی، تعلیم و ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور ٹیکس اصلاحات جیسے طویل المدتی اقدامات اپنانے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو معیشت ہمیشہ قرضوں کے سہارے چلے گی۔
اگرچہ گزشتہ ایک سال میں آئی ایم ایف اور حکومتی کوششوں سے ملک میں استحکام آیا ہے اور ملکی معیشیت میں بہتری کے اعشارے نظر آئے ہیں، مگر یہ ناکافی ہیں اور آئی ایم ایف ایک ایسا جال ہے، جس سے نکلنا انتہائی ضروری ہے۔
ملکی معیشیت میں ترقی کا واحد حل خودکفیل ہونا ہے اور اس کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کے پروگراموں سے نکل کر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ بنا کسی پریشر اور خوف کے فیصلے لیے جا سکیں۔