برطانیہ میں ممکنہ جدید غلامی کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں گزشتہ سال ریکارڈ اضافہ ہوا، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں نیشنل ریفرل میکانزم میں 19,125 متاثرین کے حوالہ جات درج کیے گئے، جو 2023 کے 17,000 کے ریکارڈ کو پیچھے چھوڑتا ہے۔
جدید غلامی میں انسانی اسمگلنگ، جبری مشقت اور استحصالی جیسی صورتحال شامل ہیں، جو غربت، تنازعات اور ہجرت کے نتیجے میں بڑھ رہی ہیں۔
برطانیہ میں یہ جرم مختلف شکلوں میں سامنے آتا ہے، جہاں مرد، عورتیں اور بچے منشیات یا جنسی تجارت، کار واش، نیل سیلون، نجی گھروں یا سماجی نگہداشت کے شعبے میں استحصال کا شکار ہو سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: یونان میں لاکھوں مظاہرین سڑکوں پرآگئے، معاملہ کیا ہے؟
برطانیہ کی آزاد انسداد غلامی کمشنر ایلینور لیونز نے کہا کہ حکومت کو جدید غلامی کے شکار افراد کی آواز سننے اور ایک مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس جرم سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں۔
انسانی حقوق کے گروپ اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کے مطابق، برطانیہ میں جدید غلامی میں رہنے والے افراد کی حقیقی تعداد تقریباً 130,000 ہے۔ این آر ایم کے مطابق، 23% متاثرین برطانوی شہری تھے، جبکہ 13% البانیہ اور 11% ویتنام سے تعلق رکھتے تھے۔ مزید برآں، تقریباً 6,000 ریفرلز بچوں کے تھے، جو کل تعداد کا 31% بنتے ہیں۔
خیراتی اداروں اور قانون سازوں نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ جدید غلامی سے نمٹنے کے لیے مزدور قوانین کے سخت نفاذ کو یقینی بنائے اور امیگریشن پالیسی میں اصلاحات کرے۔
سخت امیگریشن پالیسیاں بہت سے متاثرین کو ملک بدری کے خوف سے خاموش رہنے پر مجبور کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے وہ مدد حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔
حکومت نے این آر ایم میں کیسز پر تیزی سے کارروائی کرنے کے لیے مزید کیس ورکرز کی خدمات حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے، تاہم، 17,000 سے زائد افراد اب بھی اپنے کیسز کے دوسرے مرحلے کے فیصلے کے منتظر ہیں، جو اس مسئلے کی شدت کو اجاگر کرتا ہے۔