پاکستان نے یمن کی بگڑتی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یمن کے لیے مذاکرات اور فوری انسانی امداد پر زور دیا ہے۔
جمعرات کو سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے کہا کہ پاکستان کو یمن میں بگڑتی صورتحال پر تشویش ہے، یمن تنازع سنگین انسانی، سیاسی، اقتصادی اور ماحولیاتی بحران کو جنم دے رہا ہے۔
منیر اکرم نے کہا کہ یمن میں ایک کروڑ سے زائد افرادغذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، یمن کو فی الوقت 1.95کروڑ افراد کو فوری انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے نے زور دیا کہ فریقین امن معاہدوں پر مکمل عمل درآمد یقینی بنائیں، غزہ میں جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد اور تحفظ ضروری ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں مستقل جنگ بندی سے خطے میں استحکام کو فروغ ملے گا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق یمن میں تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو طبی مدد درکار ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔
پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً نصف بچے متعدل سے لے کر شدید درجے کی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں جن کی تعداد تقریباً 24 لاکھ ہے۔
یمن کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت اور دارالحکومت صنعا سمیت ملک کے بڑے حصے پر قابض حوثی باغیوں کے مابین لڑائی کے دوران ملک کے لیے عالمی امداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
گزشتہ پانچ برس میں ‘ڈبلیو ایچ او’ کی سرگرمیوں کے لیے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں یہ کمی 45 فیصد تک ریکارڈ کی گئی۔
اقوام متحدہ کے اداروں کا اندازہ ہے کہ رواں سال لوگوں کو ضروری طبی خدمات کی فراہمی کے لیے 7 کروڑ 70 لاکھ ڈالر درکار ہوں گے۔
گزشتہ برس قدرتی آفات بالخصوص شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں لوگوں کی بڑی تعداد کو ایک مرتبہ پھر نقل مکانی کرنا پڑی۔
اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے بتایا ہے کہ تقریباً 45 لاکھ لوگ تاحال اندرون ملک بے گھر ہیں، ان میں 80 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اس وقت ‘ڈبلیو ایچ او’ ملک میں بچوں کو غذائیت فراہم کرنے کے 96 مراکز چلا رہا ہے جن سے ہر سال 30 ہزار بچوں کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔
اس کے علاوہ 270 سے زیادہ اضلاع میں غذائیت کی صورتحال کا جائزہ لینے کی خدمات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان مراکز میں کامیاب علاج کی شرح 96 فیصد ہے جو بین الاقوامی معیار سے بھی بلند ہے۔