چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے جمعہ کے روز سخت موقف اپناتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فینٹانائل کے مسئلے پر امریکی دباؤ کا بھرپور جواب دے گا اور کسی بھی بڑی طاقت کو کمزور ممالک کو دھمکانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ان کے اس بیان کو عالمی سطح پر امریکہ کے خلاف ایک واضح تنقید کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
بیجنگ نے جغرافیائی سیاسی کشیدگی کے اس ماحول میں خود کو ایک قابلِ اعتماد عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتے ہوئے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بین الاقوامی اداروں سے علیحدگی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
امریکہ نے اس ہفتے چینی درآمدات پر 10 فیصد اضافی محصولات عائد کر دیے ہیں، جس کی بنیادی وجہ فینٹانائل جیسے مہلک نشے کی مسلسل امریکہ میں ترسیل بتائی جا رہی ہے۔ یہ اقدام چین، کینیڈا اور میکسیکو سمیت کئی ممالک کے ساتھ امریکہ کے بڑھتے ہوئے تجارتی تناؤ کو مزید ہوا دے سکتا ہے۔
چین کی پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر ایک بریفنگ کے دوران وزیر خارجہ وانگ ای نے واضح کیا کہ اگر امریکہ یکطرفہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی اپناتا ہے تو چین بھی پوری قوت سے اس کا جواب دے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی ملک یہ سوچنے کی غلطی نہ کرے کہ وہ چین پر دباؤ ڈال کر ایک طرف اسے نقصان پہنچا سکتا ہے اور دوسری طرف اس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار رکھ سکتا ہے۔
وانگ نے مزید کہا کہ امریکہ کو چین کی نیک نیتی کو کمزوری سمجھ کر اس کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بیجنگ نے ماضی میں امریکہ کی کئی مواقع پر مدد کی ہے، خاص طور پر فینٹانائل کے بنیادی کیمیکلز کی اسمگلنگ کو روکنے کے حوالے سے، لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے غیر ضروری محصولات عائد کرنا احسان فراموشی کے مترادف ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت پر تبصرہ کرتے ہوئے وانگ نے کہا کہ جہاں کہیں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی، چین وہاں نئی راہیں نکالے گا اور جہاں کہیں دباؤ ڈالا جائے گا، وہاں جدت پیدا کی جائے گی۔
چین نے یورپی ممالک اور ترقی پذیر دنیا کے لیے ایک واضح پیغام دیا کہ وہ عالمی استحکام کے لیے ایک مضبوط پارٹنر بن سکتا ہے۔
یوکرین تنازع پر چین کا مؤقف
یوکرین جنگ کے حل کے حوالے سے چین نے ایک “منصفانہ، پائیدار اور بامعنی امن معاہدے” پر زور دیا ہے، جسے تمام فریقین تسلیم کریں۔
وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ چین عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس بحران کے حل کے لیے تعمیری کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن اس کا انحصار متعلقہ فریقین کی خواہشات پر ہوگا۔
مغربی ممالک طویل عرصے سے چین پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ روس پر اپنا معاشی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے میں مدد دے، لیکن بیجنگ نے اب تک ماسکو پر کوئی کھلی تنقید نہیں کی اور نہ ہی روس کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات محدود کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
وانگ ای نے واضح کیا کہ چین اور روس کے تعلقات عالمی سیاست کے اتار چڑھاؤ سے متاثر نہیں ہوں گے اور نہ ہی انہیں جغرافیائی کھیل کا ایک مہرہ بنایا جا سکتا ہے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ساتھ ٹیلیفونک گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان “لامحدود شراکت داری” کے عزم کا اعادہ کیا۔
یہ گفتگو روس کے یوکرین پر مکمل حملے کی تیسری برسی کے موقع پر ہوئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ عہدہ سنبھالنے کے بعد یوکرین پر اپنی پالیسی میں نمایاں تبدیلی کی ہے اور روس کے حوالے سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کیا ہے، جس سے یورپی اتحادیوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز یوکرین جنگ کو امریکہ اور روس کے درمیان “بالواسطہ جنگ” قرار دیا اور کہا کہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ ماسکو کو بیجنگ سے دور کیا جائے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یورپ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا چاہتا ہے، جو یوکرین جنگ اور تجارتی کشیدگی کے باعث دباؤ میں ہیں۔
وانگ ای نے کہا کہ چین اب بھی یورپ پر اعتماد رکھتا ہے اور اسے ایک قابلِ بھروسہ شراکت دار سمجھتا ہے۔
چین اور ترقی پذیر ممالک
وانگ ای نے ترقی پذیر ممالک پر زور دیا کہ وہ عالمی حکمرانی میں اپنی نمائندگی اور اثر و رسوخ میں اضافہ کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہر ملک صرف اپنی قومی ترجیحات پر زور دے اور طاقت و حیثیت کی بنیاد پر فیصلے کرے تو دنیا “جنگل کے قانون” کی طرف واپس چلی جائے گی، جہاں سب سے زیادہ نقصان کمزور اور چھوٹے ممالک کو ہوگا، اور بین الاقوامی اصول و ضوابط کو شدید دھچکا پہنچے گا۔
انہوں نے واضح طور پر کہا کہ بڑی طاقتوں کو اپنی عالمی ذمہ داریاں ادا کرنی چاہئیں اور وہ صرف اپنے مفادات کے لیے کام نہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کمزور ممالک کو دھمکانے کے بجائے انصاف اور مساوات پر مبنی پالیسی اپنانی چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے پہلے دو ماہ کے دوران امریکہ کو کئی کثیرالجہتی تنظیموں اور ماحولیاتی معاہدوں سے الگ کر دیا، بیشتر غیر ملکی امداد معطل کر دی اور اقوامِ متحدہ کی اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جس میں روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔
چین نے امریکہ کی اس نئی پالیسی کو عالمی استحکام کے لیے خطرہ قرار دیا اور ترقی پذیر ممالک سے کہا کہ وہ بین الاقوامی نظام میں اپنی آواز بلند کریں تاکہ عالمی نظم و نسق میں ان کی پوزیشن مضبوط ہو۔