سابق کرکٹر باسط علی اور بابر اعظم کے والد کے مابین تنازعے نے جنم لے لیا، سابق کرکٹر نے کہا ہے کہ اگر بابر اعظم کے والد خود کو ان کا کوچ سمجھتے ہیں، تو انھیں اپنے بیٹے کی تکنیکی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم کے والد اعظم صدیق کی ایک انسٹاگرام پوسٹ پر سابق کرکٹر باسط علی نے ان کی کرکٹ اسناد پر سوال اٹھاتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ اگر وہ واقعی خود کو بابر کا کوچ سمجھتے ہیں تو انہیں اپنے بیٹے کی تکنیکی خامیوں کو دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب اعظم صدیق نے نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے لیے قومی ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ سے بابر اعظم کے اخراج پر سخت ردعمل دیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے کا دفاع کرتے ہوئے سابق کرکٹرز کو خبردار کیا کہ وہ تنقید کرتے وقت اپنے الفاظ کے چناؤ میں محتاط رہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جو لوگ انہیں زیادہ بولنے والا قرار دیتے ہیں انہیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ بابر کے پہلے کوچ، سرپرست اور سب سے بڑھ کر اس کے باپ ہیں۔
اعظم صدیق کی اس پوسٹ پر ردعمل دیتے ہوئے باسط علی نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ بابر اعظم کے کوچ ان کے والد ہیں۔ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے، پھر تو انہوں نے بہت کرکٹ کھیلی ہوگی۔ پتا نہیں انہوں نے کتنے ٹیسٹ میچز کھیلے، لیکن میری ان سے درخواست ہے کہ وہ بابر کی تکنیکی خامیوں کو دور کریں۔
اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں اعظم صدیق کا کہنا تھا کہ عظیم سابق کرکٹرز سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اپنے الفاظ کا خیال رکھیں۔ اگر کوئی جواب دینے کا فیصلہ کرتا ہے، تو شاید آپ اسے برداشت نہ کر سکیں۔ آپ ماضی کا حصہ ہیں اور واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔
دوسری جانب سابق وکٹ کیپر کامران اکمل نے بھی اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر باپ کو اپنے بیٹے کی حمایت کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن کسی کھلاڑی کے اسکواڈ سے باہر ہونے کے بعد اس طرح کے بیانات دینا مناسب نہیں۔
کامران اکمل نے کہا کہ ہر باپ اپنے بیٹے سے محبت کرتا ہے، کچھ کھل کر اس کا اظہار کرتے ہیں، جب کہ کچھ وقت اور قسمت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کرکٹ میں بابر کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن انہیں جدید تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔ تاہم، کسی کھلاڑی کے ڈراپ ہونے کے بعد بیانات دینا غیر ضروری ہے۔
یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا ہے، بابر اعظم کے مداح اور ناقدین دونوں اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ بابر یا پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس معاملے پر کوئی ردعمل دیتے ہیں یا نہیں۔