بلوچستان میں محکمہ خوراک کے گوداموں میں ذخیرہ شدہ لاکھوں بوری گندم خراب ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے، جس کے باعث حکومت نے فوری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
محکمہ خوراک بلوچستان نے دو سال قبل زمینداروں سے تقریباً 10 لاکھ بوری گندم خرید کر ذخیرہ کی تھی تاکہ کسی بھی ممکنہ قلت کے دوران فلور ملز کو فراہم کی جاسکے۔ تاہم، گزشتہ سال گندم کی اچھی پیداوار کی وجہ سے مارکیٹ میں آٹے اور گندم کی وافر مقدار دستیاب رہی، جس کے باعث سرکاری ذخائر میں رکھی گئی گندم استعمال نہ ہو سکی۔
محکمہ خوراک کے گوداموں میں سہولیات کی کمی کے باعث 8 لاکھ بوریاں خراب ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ گوداموں میں درجہ حرارت اور نمی کے مسائل کی وجہ سے سرکاری گندم کے خراب ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں، جس سے عوامی خزانے کو کروڑوں روپے کے نقصان کا سامنا ہوسکتا ہے۔
حکومت بلوچستان نے اس سنگین صورتحال کے پیش نظر فوری طور پر گندم کو اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کی ہدایت جاری کردی ہے تاکہ مزید نقصان سے بچا جا سکے۔ لیکن ایک بڑا مسئلہ یہ درپیش ہے کہ دو سال قبل خریدی گئی گندم کی قیمت موجودہ مارکیٹ ریٹ سے کہیں زیادہ تھی، جس کے نتیجے میں محکمہ خوراک کو بھاری مالی نقصان اٹھانے کا اندیشہ ہے۔
اگر بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو خراب ہونے والی گندم مکمل طور پر ضائع ہوسکتی ہے، جس سے صوبے کو اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہوگا۔ اس معاملے پر محکمہ خوراک اور دیگر متعلقہ ادارے غور و فکر کر رہے ہیں کہ گندم کی فروخت کا ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جس سے مالی نقصان کم سے کم ہو اور گندم ضائع ہونے سے بچائی جاسکے۔
زمیندار تنظیموں کا کہنا ہے کہ اگر گندم ذخیرہ کرنے کے بہتر انتظامات کیے جاتے تو آج یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا۔ فلور ملز مالکان کا بھی کہنا ہے کہ اگر حکومت نے پہلے ہی سبسڈی پر گندم جاری کردی ہوتی تو مارکیٹ میں استحکام آتا اور حکومت کو بھی نقصان نہ ہوتا۔
صوبائی حکومت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے تحت جلد ہی اوپن مارکیٹ میں گندم کی فروخت کا طریقہ کار طے کیا جائے گا تاکہ مالی نقصان کو کم کیا جاسکے اور عوام کو سستی قیمت پر گندم اور آٹا فراہم کیا جا سکے۔