عراق پر ایک نئی مصیبت آن پڑی ہے، جب امریکا نے ایران سے بجلی خریداری کے لئے دی جانے والی معافیت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکی حکام کے مطابق پچھلے ہفتے اس معافیت کی مدت ختم ہو گئی تھی اور امریکی وزارت خارجہ نے اسے مزید توسیع دینے سے انکار کر دیا ہے۔
عراقی دارلحکومت ‘بغداد’ میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی “میکسیمم پریشر کیمپین” کا حصہ ہے جس کا مقصد ایران کے جوہری خطرات کو ختم کرنا، اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو روکنا اور دہشت گرد گروپوں کی حمایت کو کم کرنا ہے۔
امریکی بیان میں کہا گیا کہ ہم عراق کی حکومت کو ایران کے توانائی کے ذرائع پر انحصار ختم کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں کہ عراقی وزیراعظم نے توانائی کی خودمختاری حاصل کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
دوسری جانب حقیقت یہ ہے کہ عراق اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایران پر انتہائی انحصار کرتا ہے، خاص طور پر بجلی کے معاملے میں۔
مزید پڑھیں: ‘عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، ٹرمپ نے نہیں، وفاقی وزیر
عراق، جو دنیا میں بڑے تیل اور گیس پیدا کرنے والے ممالک میں شامل ہے اس کے باوجود توانائی کی شدید قلت کا شکار ہے۔ کیونکہ جنگ، بدعنوانی اور انتظامی نااہلی کی وجہ سے اس ملک میں بجلی کی فراہمی ہمیشہ سے ایک چیلنج رہی ہے۔
حالیہ برسوں میں، عراق نے ایران سے گیس اور بجلی درآمد کرنا شروع کر دی تھی تاکہ بجلی کی کمی پر قابو پائیں لیکن اب امریکا کے اس فیصلے نے عراقی حکومت کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔
عراقی وزارت توانائی کے ترجمان ‘احمد موسٰی’ نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایران سے گیس کی درآمدات بھی بند ہو گئیں تو ملک کو اپنی بجلی کی پیداوار کا 30 فیصد تک نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس وقت بغداد اور وسطی عراق میں ایران سے آنے والی گیس کی سپلائی گزشتہ دو ماہ سے رک چکی ہے اور جنوبی عراق میں یہ سپلائی غیر مستحکم ہو چکی ہے۔
دوسری جانب عراقی وزارت توانائی کے ایک سینئر اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ وزارت کو ابھی تک ایران سے گیس کی درآمدات پر امریکی فیصلے کے بارے میں سرکاری طور پر کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ اگر ایران سے گیس کی سپلائی میں مزید کمی آئی تو عراق کی 8,000 میگاواٹ تک کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت متاثر ہو گی، جو ایران کی گیس پر انحصار کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں اسرائیلی سیاح سمیت دو خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی، ایک شخص کو قتل کردیا گیا
عراقی حکام اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے متبادل ذرائع تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی واضح حل سامنے نہیں آیا۔
اس کے علاوہ عراق کے پاس ایران کے ساتھ ایک بینک اکاؤنٹ میں تقریبا 7.5 ارب یوروز جمع ہیں جو ایران کی گیس کی خریداری کے لئے مختص ہیں لیکن یہ رقم صرف انسانی امداد جیسے کھانے، دوائیوں اور دیگر ضروری سامان کے لئے استعمال ہو سکتی ہے۔
عراق کے عوام پہلے ہی شدید توانائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، خاص طور پر گرمیوں کے مہینوں میں جب درجہ حرارت 50 ڈگری سیلسیس (122 فارن ہائٹ) تک پہنچ جاتا ہے۔
دوسری جانب بجلی کی بندش کے باعث لوگ عام طور پر ڈیزل جنریٹروں کا سہارا لیتے ہیں یا انتہائی گرمی میں بغیر بجلی کے وقت گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اگر امریکی فیصلے کے بعد ایران سے توانائی کی فراہمی مکمل طور پر بند ہو گئی، تو عراق کے شہریوں کے لئے ایک اور سنگین بحران جنم لے گا۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ عراق اپنی توانائی کی ضروریات کو کس طرح پورا کرے گا؟ کیا عراق امریکا کی پالیسی کے تحت ایران سے اپنے توانائی کے ذرائع کو مکمل طور پر ختم کر پائے گا یا اسے ایران سے توانائی کی خریداری کے لئے کسی نئے معاہدے کی ضرورت پڑے گی؟
لازمی پڑھیں: پولینڈ کا یوکرین کے لیے اسٹارلنک سروسز کے متبادل کا عندیہ، ایلون مسک کی دھمکی پر کشیدگی بڑھ گئی