اسرائیل نے حماس سے جنگ بندی معاہدہ ختم ہونے کے بعد دوبارہ سے غزہ کے خلاف گھناونے منصوبوں کا آغاز کر دیا ہے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کے لیے بیرونی امداد کی سپلائی لائن روکنے کے بعد غزہ کے لیے بجلی کی سپلائی مکمل طور پر بند کر دی ہے۔
غزہ کے تاریکی میں ڈوبنے پر حماس کی جانب سے اسرائیلی اقدامات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے “چیپ بلیک میلنگ” کا نام دیا گیا ہے،
اسرائیلی مذاکراتی وفد اس وقت دوحہ میں موجود ہے جہاں مصر، قطر اور امریکہ کے ثالث کار اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔
مذاکرات کا مقصد فلسطینیوں کے لیے امداد بحال کروانا اور جنگ بندی معاہدے کو توسیع دینا ہے۔
ٹرمپ کی مذاکراتی ٹیم میں شامل ایڈم بوہلر نے بتایا کہ قطر مذاکرات میں ثالت کے طور پر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
رپورٹر کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ قطر ہم سے کوئی گیم نہیں کر رہا بلکہ وہی کردار ادا کر رہا ہے جس کے لیے ہم نے درخواست کی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہو، دونوں اطراف سے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
واضح رہے کہ او آئی سی نے ٹرمپ منصوبے کے خلاف تجاویز کو منظور کرتے ہوئے غزہ کی بحالی کے لیے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دی ہے۔
غزہ کی صورت حال پر بحث کے لیے اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس جدہ میں ہوا تھا، جس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔
مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے موقف اپنایا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے ہنگامی وزارتی اجلاس میں مصری منصوبے کو منظور کر لیا گیا، جو اب ایک عرب-اسلامی منصوبہ بن چکا ہے۔ ان کے اس بیان کی سوڈانی وزیر خارجہ نے بھی توثیق کی ہے۔
اجلاس میں پاکستانی وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں پر مظالم بند کرے، اور اس سخت وقت میں پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں کہا تھا کہ غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کو جنگ زدہ علاقے سے باہر مستقل طور پر آباد کیا جائے جبکہ امریکہ اس علاقے کی تعمیر نو کے لیے ’ملکیت‘ لے۔
ٹرمپ کی اس تجویز کو عالمی برادری خاص طور پر عرب ممالک کی طرف سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
پہلا مرحلہ، جسے مکمل ہونے میں دو سال لگیں گے، 20 ارب ڈالر کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ اس مرحلے میں غزہ میں دو لاکھ مکانات کی تعمیر شامل ہوگی۔
منصوبے کے مطابق ابتدائی بحالی چھ ماہ میں مکمل کی جائے گی جس میں ملبہ ہٹانے اور عارضی رہائش کی سہولت فراہم کرنے کے اقدامات شامل ہوں گے۔
دوسرا مرحلہ جو تقریباً ڈھائی سال میں مکمل ہوگا، غزہ میں مزید دو لاکھ رہائشی یونٹس اور ایک ہوائی اڈے کی تعمیر پر مشتمل ہوگا۔
مجموعی تعمیراتی عمل پانچ سال میں مکمل کیا جائے گا اور تخمینے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر مجموعی لاگت 53 ارب ڈالر آئے گی۔
گزشتہ لگ بھگ ڈیڑھ سال کے دوران دنیا کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے لگ بھگ 50 ہزار فلسطینیوں کی جان لی، جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہزاروں فلسطینی جو لاپتہ ہیں، ان کے بارے میں قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
رواں ہفتے ہی عرب سربراہ اجلاس میں غزہ کے مستقبل کے لیے مصر کا منصوبہ منظور کیا گیا۔ مسودے میں عالمی برادری اور مالیاتی اداروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس منصوبے کے لیے فوری امداد فراہم کریں۔
مصر کے زیر اہتمام یہ سربراہی اجلاس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کی تجاویز کے ساتھ اسرائیلی وزیراعظم کے فائر بندی کے خاتمے اور غزہ میں دوبارہ حملے شروع کرنے کے مؤقف کا جواب دینے کے لیے منعقد ہوا تھا۔