Follw Us on:

امریکا میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت کی شرح بلند ترین سطح تک پہنچ گئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
امریکا میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت کی شرح بلند ترین سطح تک پہنچ گئی

امریکا میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت کی شکایات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جو کہ اسرائیل اور غزہ کے درمیان جنگ کے باعث بڑھا ہے۔

اس ضمن میں امریکا کی معروف انسانی حقوق کی تنظیم ‘کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز’ (CAIR) نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ سال 8,658 شکایات موصول ہوئیں جو کہ گزشتہ سال کی نسبت 7.4 فیصد زیادہ ہیں۔

یہ تعداد 1996 سے اس تنظیم کے ذریعے جمع کی جانے والی شکایات میں سب سے زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ شکایات ملازمت کے حوالے سے تھیں جن کی تعداد 15.4 فیصد تھی جبکہ 14.8 فیصد شکایات پناہ گزینی اور امیگریشن سے متعلق تھیں۔

دوسری جانب تعلیمی اداروں میں امتیاز کی شکایات کا تناسب 9.8 فیصد تھا جبکہ hate crimes یا نفرت انگیز جرائم کی شکایات 7.5 فیصد تک پہنچیں۔

یہ بھی پڑھیں: فنڈنگ رُکنے سے انسانی سمگلنگ میں اضافہ، امریکہ کو بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے

انسانی حقوق کئ تنظیم CAIR نے اس بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا اور عرب مخالف تعصب کی لہر کو غزہ میں اسرائیل کے حملوں کے بعد کی صورتحال سے جوڑا ہے جس میں اسرائیل کے حملوں کے بعد مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت انگیز واقعات میں اضافہ ہوا۔

اس تنظیم نے واضح کیا ہے کہ “غزہ میں امریکی حمایت یافتہ اسرائیلی حملوں نے امریکا میں اسلاموفوبیا کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔”

اس کے علاوہ اس سال کے دوران چند خوفناک واقعات نے قوم کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس میں ایک چھ سالہ فلسطینی امریکی بچے کا قتل، جو کہ ایک نفرت انگیز جرم کے نتیجے میں ہوا۔

اسی طرح، ٹیکساس میں ایک تین سالہ فلسطینی امریکی لڑکی کو ڈوبوائے جانے کی کوشش کی گئی، اور نیو یارک میں ایک مسلمان شخص کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ فلوریڈا میں اسرائیلی سیاحوں پر فائرنگ کا واقعہ بھی پیش آیا جس میں ایک شخص نے فلسطینی سمجھ کر ان پر گولیاں چلائیں۔

لازمی پڑھیں: غزہ کا “نور سیلون” ظلمت کے دور میں جرات کی مثال

تعلیمی اداروں میں فلسطین کے حق میں ہونے والے احتجاجات کے دوران بھی صورتحال کشیدہ رہی۔ کئی یونیورسٹیوں میں احتجاجیوں پر تشدد کے واقعات پیش آئے۔

کولمبیا یونیورسٹی میں پولیس نے مظاہرین کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر حملہ کیا گیا۔

اس دوران، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ “یہ پہلا قدم ہے اور ایسے بہت سے طالب علم ہیں جو دہشت گردوں کی حمایت کرتے ہیں۔”

ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ “ٹرمپ انتظامیہ اس طرح کی کارروائیوں کو برداشت نہیں کرے گی۔”

CAIR نیو یارک کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر آفا ناشر نے ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ “یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے جو تمام شہری آزادیوں کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔”

2024 میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور امتیاز کی لہر ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے جس کے اثرات پوری امریکی سوسائٹی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

اس صورتحال کے پیش نظر انسانی حقوق کے محافظ اور کمیونٹی کے رہنما ایک نئی حکمت عملی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تاکہ امریکا میں بڑھتی ہوئی اسلاموفوبیا کو روکا جا سکے اور اقلیتی کمیونٹیز کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

مزید پڑھیں: بیرون ملک جھوٹی ملازمت کے وعدوں کے تحت پھنسے 300 ہندوستانی شہریوں کو بچا لیا گیا

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس