یوکرین نے منگل کے روز ماسکو اور اس کے ارد گرد کے علاقے پر اب تک کا سب سے بڑا ڈرون حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک ہوگئے۔
روسی حکام کے مطابق یہ حملہ ایک گوشت کے گودام کے ملازمین پر ہوا، جس میں 17 دیگر افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے کے باعث ماسکو کے چار ہوائی اڈوں پر عارضی طور پر بندش بھی ہو گئی۔
یہ ڈرون حملہ روس کے دفاعی نظام کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوا، جس میں کل 343 ڈرونز کو مار گرایا گیا، جن میں سے 91 ماسکو کے علاقے میں اور 126 ڈرونز کورسک کے مغربی علاقے میں مارے گئے۔
روس کے وزارت دفاع کے مطابق یوکرینی فورسز نے یہ حملہ کورسک کے نیوکلیر پاور پلانٹ کے قریب بھی کیا۔
روس کے وزیر دفاع نے یہ دعوی کیا ہے کہ یوکرین نے شہری انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا ہے جب کہ یوکرین کے جنرل اسٹاف نے اپنی طرف سے بتایا کہ حملے میں روس کے ماسکو اور اوریول علاقوں کے تیل کے پلانٹس کو نشانہ بنایا گیا۔
یہ حملہ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی شدت کو بڑھاتا دکھائی دیتا ہے جس میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے دفاعی اور حملے کے نظام کو جدید بنایا ہے۔
یہ حملہ سعودی عرب میں یوکرینی اور امریکی حکام کے درمیان تین سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکرات سے عین قبل کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا میں مسلمانوں اور عربوں کے خلاف نفرت کی شرح بلند ترین سطح تک پہنچ گئی
یوکرین نے اس سے قبل بھی روسی شہروں پر متعدد ڈرون حملے کیے ہیں مگر ماسکو پر یہ حملہ ایک نیا سنگ میل ثابت ہوا۔
ماسکو کے مئیر ‘سرگئی سوبیانین’ نے اس حملے کو شہر پر اب تک کا سب سے بڑا یوکرینی ڈرون حملہ قرار دیا جس سے پورے ماسکو اور اس کے گردونواح میں ہلچل مچ گئی۔
ماسکو کے ارد گرد 21 ملین افراد کی آبادی ہے جو یورپ کے سب سے بڑے شہری علاقے میں شمار ہوتی ہے۔
دوسری جانب کریمین کے ترجمان دمتری پیسکوف’ نے کہا کہ روسی حکام نے موثر دفاعی اقدامات کیے تھے جس کی بدولت ماسکو اور دیگر علاقوں کی حفاظت کی گئی۔ تاہم، اس حملے نے ایک بار پھر یہ واضح کر دیا کہ جنگ میں ڈرونز کا استعمال دونوں طرف سے بڑھ رہا ہے اور یہ ایک نیا ہتھیار ثابت ہو چکا ہے جو کم قیمت پر تباہ کن نتائج دے سکتا ہے۔
روس کے دفاعی کمیٹی کے سربراہ جنرل اینڈری کرٹاپولوف نے تجویز کیا کہ ماسکو کو اس حملے کا جواب یوکرین پر “اووریشنک” ہائپرسونک میزائل کے ذریعے دینا چاہیے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ یوکرین نے روس پر کئی مرتبہ بڑے پیمانے پر ڈرون حملے کیے ہیں اور اب وہ اپنے دفاعی اقدامات کو مزید مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہ حملہ اس بات کا عکاس ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان جنگ اب زیادہ سے زیادہ ٹیکنالوجی پر مبنی ہو چکی ہے جہاں ڈرونز، میزائلز اور دیگر جدید اسلحہ کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔
اس حملے نے عالمی برادری کو ایک اور سوال کے سامنے لا کھڑا کردیا ہے کہ یہ جنگ کب ختم ہوگی اور اس کے نتائج دنیا بھر پر کس طرح اثرانداز ہوں گے۔