یورپی کمیشن نے منگل کے روز ایک تاریخی اقدام کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد یورپ کی دواوں کے حوالے سے ایشیا پر بڑھتے انحصار کو کم کرنا ہے۔
اس اقدام کے تحت یورپی یونین چین اور انڈیا جیسے ایشیائی ممالک سے اپنی اہم دواوں کی فراہمی پر انحصار کو کم کرنے کی کوشش کرے گا جن میں اینٹی بایوٹکس اور دیگر ضروری ادویات شامل ہیں۔
تاہم، اس اقدام کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں ہوگا کیونکہ دوا کی قیمتوں کے دباؤ کے سبب چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یورپی کمیشن نے ‘کریٹیکل میڈیسنز ایکٹ’ کی منظوری دینے کی تجویز پیش کی ہے جس کا مقصد یورپ کی صحت کے نظام کی حفاظت کے لیے 270 سے زائد اہم دواوں کی پیداوار کے سلسلے میں ممکنہ خطرات کو کم کرنا ہے۔
یہ دواوں کی فہرست کمیشن نے گذشتہ دسمبر میں جاری کی تھی اور ان میں وہ تمام ادویات شامل ہیں جو یورپ میں صحت کے تحفظ کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہیں۔
اس بل کے تحت یورپی حکومتوں کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جنریک دواوں کے لیے ٹینڈر دینے کے عمل میں صرف قیمت کے معیار پر انحصار نہ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے کینیڈین دھات پر ٹیرف کو دوگنا کر دیا
یورپی جنریک دوا ساز کمپنیاں اس بات کا الزام عائد کرتی ہیں کہ قیمتوں کی کمی کی جنگ نے یورپی کمپنیوں کو ایشیائی ممالک کے سپلائرز کے سامنے شکست سے دوچار کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ یورپ میں استعمال ہونے والی 80 فیصد اینٹی بایوٹکس کا فعال اجزا چین اور انڈیا جیسے ممالک سے آ رہا ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر 11 یورپی ممالک کے صحت کے وزیروں نے ایک کھلے خط میں یہ تشویش ظاہر کی تھی کہ ایشیا پر انحصار بڑھ رہا ہے، اور اس سے یورپ کی دوا کی سپلائی چین میں خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے صحت کے اداروں کو فیصلہ کرنے کا حتمی اختیار حاصل ہے اور وہ دوا کی خریداری کے دوران بجٹ کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔
ایک یورپی وزارت صحت کے ذرائع نے عالمی خبرساں ادارے ‘روئٹرز’ کو بتایا کہ “اگر میں انسولین پر پیسے بچا سکتا ہوں تو مجھے اسے بچانا پڑے گا کیونکہ ہر یورو جو میں بچاتا ہوں وہ کینسر اور نیورولوجیکل بیماریوں کے علاج کے لیے مختص ہو سکتا ہے۔”
لازمی پڑھیں: یوکرین کا ماسکو پر سب سے بڑا ڈرون حملہ: رو س کو شدید دھچکا اور ہلاکتیں
یورپی کمیشن نے تجویز پیش کی ہے کہ یورپی رکن ممالک کے صحت کے ادارے دوا کی خریداری کے عمل میں صرف قیمت کے بجائے دیگر معیار کو بھی مدنظر رکھیں جب تک کہ مارکیٹ کا تجزیہ یا صحت کی خدمات کے مالی انتظامات کی بنا پر قیمت کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ضروری نہ ہو۔
یہ بل اس بات پر سوالات اٹھاتا ہے کہ آیا یہ قدم یورپ کی دوا ساز صنعت میں بنیادی تبدیلیاں لا سکے گا یا نہیں۔
کمیشن نے دو سال پہلے یورپی دوا کی صنعت کے قوانین کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی کوشش شروع کی تھی تاکہ نہ صرف جدید علاج، بلکہ جنریک دواوں کی دستیابی بھی یقینی بنائی جا سکے، لیکن ابھی تک ان تجویز کردہ تبدیلیوں کو قانون کی صورت میں تبدیل نہیں کیا جا سکا۔
یورپی یونین کا یہ اقدام دنیا بھر میں دوا کی پیداوار اور سپلائی چین پر اثر انداز ہونے والی نئی جہت کو اجاگر کرتا ہے اور اس کا مقصد صرف یورپ کی دوا کی فراہمی کو محفوظ بنانا نہیں بلکہ عالمی سطح پر دواؤں کی پیداوار کے متبادل اور منصفانہ ماڈلز کو فروغ دینا بھی ہے۔
تاہم، اس حوالے سے عملی اقدامات ابھی تک حتمی شکل اختیار نہیں کر سکے ہیں اور یورپ کو ان چیلنجز سے نمٹنے میں وقت لگے گا۔
یہ ایک انتہائی اہم موضوع ہے جس کا عالمی سطح پر اثر پڑ سکتا ہے اور یورپ کی دوا سازی کی صنعت کا مستقبل اس بات پر منحصر ہوگا کہ یہ اصلاحات کس حد تک کامیاب ہو سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکی ‘یوٹرن’ کے باوجود کوبا نے 553 قیدیوں کو رہا کروا لیا