ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے شامی کرد فورسز اور امریکی حمایت یافتہ شامی جمہوری افواج (SDF) کے درمیان معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے جس کا مقصد شام میں سیکیورٹی اور استحکام کو فروغ دینا ہے۔
ایردوان کا کہنا تھا کہ اگر یہ معاہدہ مکمل طور پر عمل میں آتا ہے تو یہ شام کے لیے ایک نیا دور شروع کرے گا۔
شامی جمہوری افواج (SDF) جو شام کے شمال مشرق کے بڑے حصے پر قابض ہیں انہوں نے شامی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت یہ فورسز ملک کے نئے ریاستی اداروں میں شامل ہوں گی۔
شامی صدر بشار الاسد کی حکومت نے پیر کے روز اس معاہدے کی تصدیق کی۔
اس معاہدے کے مطابق ایس ڈی ایف کے زیر انتظام تمام شہری اور فوجی ادارے اب شامی حکومت کے ماتحت آئیں گے اور اس کے علاوہ سرحدی گزرگاہوں، ایک ہوائی اڈے اور تیل و گیس کے میدانوں پر دمشق کی حکومت کا کنٹرول ہوگا۔
ایردوان نے اس معاہدے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ “جو معاہدہ شام میں گزشتہ روز طے پایا ہے اس کے مکمل نفاذ سے ملک میں سیکیورٹی اور استحکام آئے گا۔ اس سے شام کے تمام عوام کو فائدہ ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “ہم اپنے ہمسایہ ملک شام کی علاقائی سالمیت، اس کے جغرافیائی ڈھانچے کی حفاظت اور اس کی یکجہتی و استحکام کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔”
مزید پڑھیں: “جو کرنا ہے کر لو” ایران کا امریکا کو جواب
یہ معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب دمشق میں شام کے مغربی علاقے میں علوی اقلیتی گروہ کے افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر قتل عام کی خبریں آئی ہیں۔
شامی صدر احمد الشراہ نے کہا کہ یہ قتل عام ان کی حکومت کے اتحاد کی کوششوں کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کیونکہ 14 سالہ خانہ جنگی کے بعد شام میں یکجہتی اور استحکام کی ضرورت ہے۔
جب سے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ کرنے کے لیے ترکی نے کئی سال تک باغیوں کی حمایت کی تھی۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ترکی نے دمشق کے ساتھ تعاون بڑھایا ہے اور اب شامی حکومت کے ساتھ مضبوط اتحادی کے طور پر سامنے آیا ہے۔
ترکی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ عراق، شام، ترکی اور اردن کے درمیان عمان میں ہونے والے حالیہ سیکیورٹی تعاون کے مذاکرات اس معاہدے کے لیے اہم ثابت ہوئے ہیں۔
ان مذاکرات میں اسلامی ریاست (ISIS) کے قیدیوں کی منتقلی، انٹیلی جنس شیئرنگ اور ایک مشترکہ آپریشن سینٹر کے قیام پر بات چیت ہوئی۔
اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہوتا ہے تو نہ صرف شام کی سیاست بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں استحکام کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں مگر اس کے ساتھ ہی اس کی عملی پیچیدگیاں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ کے بعد غزہ میں پانی کی کمی کا بحران سنگین سطح تک پہنچ گیا، یونیسیف