جدید دنیا میں ٹیکنالوجی نے ہر شعبۂ زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے اور پاکستان بھی اس تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ ڈیجیٹل معیشت ایک ایسا اقتصادی نظام ہے جو بنیادی طور پر انٹرنیٹ، جدید ٹیکنالوجی، اور الیکٹرانک وسائل پر انحصار کرتا ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کا رجحان حالیہ برسوں میں تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ ای کامرس، ڈیجیٹل بینکنگ، فری لانسنگ، اور موبائل پیمنٹ سسٹمز نے کاروبار اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے ہیں۔ نوجوان بڑی تعداد میں آن لائن پلیٹ فارمز سے وابستہ ہو رہے ہیں اور عالمی سطح پر اپنی مہارتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
حکومت پاکستان بھی اس شعبے کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ ڈیجیٹل پاکستان ویژن، نیشنل ای کامرس پالیسی، اور سٹارٹ اپ سپورٹ پروگرامز جیسے اقدامات معیشت کو جدید راستے میں لے کر جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروبار، آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل سروسز کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستانی آئی ٹی برآمدات میں سالانہ 24 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت پاکستان نے 18 اسپیشل ٹیکنالوجی زونز کو فعال کیا ہے، جبکہ اسپیشل ٹیکنالوجی زونز ٹیکس چھوٹ، فارن ایکسچینج اکاؤنٹس سہولت فراہم کرتے ہیں. اس کے علاوہ اسپیشل ٹیکالوجی زونز ڈیوٹی فری درآمدات کے ذریعے سرمایہ کاری کو راغب کرتے ہیں۔
پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں براڈ بینڈ، فنٹیک اور اے آئی میں سرمایہ کاری کے ساتھ 75 بلین ڈالر تک پہنچنے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر ڈیجیٹل تبدیلی سے مکمل فائدہ اٹھایا جائے تو 2030 تک 9.7 ٹریلین روپے تک کی معاشی قدر پیدا ہو سکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دینے کے اقدامات سے معاشی ترقی اور شمولیت کو مدد ملے گی۔ ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پاکستان کی ڈیجیٹل برآمدات میں نمایاں کردار ادا کریں گی۔
آئی ٹی سیکٹر میں سالانہ 30 فیصد اضافے کی توقع ہے، جس سے 2029 تک 3.6 بلین ڈالر تک کی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے۔ 2018 اور 2023 کے درمیان ٹیکنالوجی کی برآمدات میں 143 فیصد اضافہ ہوا، جو 1 بلین ڈالر سے بڑھ کر 2.6 بلین ڈالر تک پہنچ گئی۔
تاہم، کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ملک میں انٹرنیٹ کی سہولیات ہر جگہ دستیاب نہیں، جس سے ڈیجیٹل معیشت کی ترقی میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ سائبر سیکیورٹی کے مسائل اور آن لائن دھوکہ دہی کے خدشات بھی ایک بڑا چیلنج ہیں۔ ڈیجیٹل خواندگی کی کمی کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے محروم ہے۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے شعبہِ کاروبار سے وابستہ طالب علم بشریٰ امان ورک نے کہا کہ “ڈیجیٹل معیشت کے فروغ کے لیے پاکستان میں سب سے بڑا چیلنج انٹرنیٹ کی محدود اور سست رفتار ہے اور انٹرنیٹ کی سست رفتار اور وقتاً فوقتاً بندش ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہ نہ صرف کاروبار کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ روزگار کے مواقع کو بھی محدود کرتا ہے”۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ “دوسرا بڑا مسئلہ ڈیٹا سیکیورٹی اور اس کا تحفظ ہے مزید یہ کہ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے جامع قانون کی کمی ایک اہم چیلنج ہے۔اس مسئلہ کے حل کے لیے گیریژن یونیورسٹی لاہور اور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے طلباء، امریکہ کی سپورٹ سے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ شہریوں کے حساس ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ فاونڈر آف ڈیجیٹل پاکستان اور فارمر ڈی جی ایف آئی اے سید عمار جعفری اپنی ٹیم کے ساتھ پاکستان میں پچاس سے زائد سینٹر آف انفارمیشن اور ٹیکنالوجی بنا چکے ہیں جس کے ذریعے پسماندہ علاقوں کے لوگ بھی اپنا ڈیٹا محفوظ کرنے کی سہولت پا سکتے ہیں”۔
ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں 80 فیصد آئی ٹی گریجویٹس کے پاس متعلقہ انڈسٹری کی مہارت نہیں ہے۔ ڈیجیٹل ہنر کی تربیت کے ذریعے اس کمی کو دور کرنے سے 2030 تک پاکستان کی سالانہ جی ڈی پی میں 2.8 ٹریلین روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کا مقصد 70 فیصد براڈ بینڈ کی رسائی حاصل کرنا اور جی ڈی پی میں آئی ٹی سیکٹر کے حصہ کو بڑھانا ہے۔
ڈیجیٹل خدمات میں خلل، بشمول انٹرنیٹ کی رفتار کم کرنا اور سوشل میڈیا پر پابندی، کاروبار کو متاثر کر رہی ہیں۔ 2023 میں، پاکستان کو انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے 65 بلین روپے (237.6 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا۔ مصنوعی ذہانت (AI) 2030 تک پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت میں 10 سے 20 بلین ڈالر تک کا حصہ ڈال سکتی ہے۔ اے آئی 2030 تک پاکستان کی جی ڈی پی کا 10 فیصد تک ہو سکتا ہے۔ 2023 میں، گوگل کی مصنوعات اور حل نے پاکستانی کاروباروں کے لیے 2.6 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمی فراہم کرنے اور 864,600 ملازمتوں کو سپورٹ کرنے میں مدد کی۔ موبائل ایپس، آن لائن ویڈیو سروسز، کراس بارڈر ڈیجیٹل اشتہارات، کراس بارڈر ای کامرس اور دیگر ڈیجیٹل سروسز کی برآمدات سے 2030 میں 6.6 بلین ڈالر (1.8 ٹریلین روپے) کی اضافی سالانہ برآمدی قیمت حاصل کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل معیشت کے امکانات وسیع ہیں۔ اگر حکومت اور نجی شعبہ مل کر انفراسٹرکچر کو بہتر بنائیں، پالیسیوں میں استحکام لائیں، اور عوام میں ڈیجیٹل تعلیم کو فروغ دیں، تو یہ شعبہ ملکی معیشت کو ایک نئی جہت دے سکتا ہے۔ مستقبل میں ڈیجیٹل معیشت کے ذریعے پاکستان ایک مضبوط اور خوشحال اقتصادی نظام کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
ای-کامرس پلیٹ فارمز جیسے دراز، ٹیلی مارٹ اور دیگر آن لائن مارکیٹ پلیسز کے ذریعے ہزاروں کاروباری افراد اپنی مصنوعات بیچ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا بھی آن لائن کاروبار کا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے، جہاں انسٹاگرام اور فیس بک بزنسز کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے گورنمنٹ اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبئہ آئی ٹی سے وابستہ ڈاکٹر کامران جہانزیب کا کہنا تھا کہ “ترقی یافتہ ممالک امریکہ، یورپ، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک جدید ڈیجیٹل انفراسٹرکچر رکھتے ہیں، جہاں فائیو جی نیٹ ورک، فائبر آپٹکس، اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ عام ہیں۔ یہ ممالک مصنوعی ذہانت، بگ ڈیٹا، اور بلاک چین جیسی جدید ٹیکنالوجیز کو مؤثر انداز میں اپنا چکے ہیں جبکہ پاکستان میں ڈیجیٹل انفراسٹرکچر ابھی ترقی پذیر ہے۔ 4G انٹرنیٹ تو موجود ہے، لیکن 5G کی آمد سست روی کا شکار ہے۔ رورل ایریاز میں انٹرنیٹ کی دستیابی محدود ہے، اور فائبر آپٹکس نیٹ ورک ابھی ترقی کے مراحل میں ہے”۔
بشریٰ امان ورک صاحبہ کا کہنا تھا کہ “پاکستانی اسٹارٹ اپس کا عالمی مارکیٹ میں قدم جمانا ایسے ہی ہے جیسے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا کیونکہ ہمارا ڈیجیٹل سسٹم بھی انٹرنیٹ کی تیز رفتار اور رسائی سے محروم ہے اور بین الاقوامی سطح پر کمزور ہے۔ پاکستانی اسٹارٹ اپس کو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے عالمی صارفین تک پہنچنا چاہیے۔ انہیں انٹرنیٹ کی مستحکم رسائی اور ڈیٹا سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔ پنجاب آئی ٹی بورڈ اس مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کوشاں ہے”۔
انہوں نے مزید کہا کہ”حکومتی پالیسیوں اور ای کامرس کو فروغ دینے کے لیے حکومت کو ٹیکس انسنتھیٹکس اور ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹمز کو بہتر بنانے کی پالیسیاں بنانی چاہیئے۔ ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر، تیز رفتار انٹرنیٹ کی فراہمی اور ڈیجیٹل سیکیورٹی کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ڈیجیٹل معیشت برآمدات میں اضافہ اور زرِ مبادلہ کی فراہمی کے ذریعے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ڈیجیٹل سیکٹر میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس میں بِٹ کوائن، کریپٹوکرنسی ، فاریکس، فائیور اور فِن ٹیک انڈسٹری کلیدی کردار ادا کر رہی ہے”۔
عالمی سرمایہ کاری کے متعلق ڈاکٹر کامران جہانزیب کا کہنا تھا کہ”بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے ڈیجیٹل اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کی ترغیب دینے کے لیے مستحکم ریگولیٹری فریم ورک، ٹیکس میں رعایت، اور کاروبار کے لیے آسان قوانین ضروری ہیں۔ جدید انفراسٹرکچر، تیز انٹرنیٹ، اور ڈیجیٹل ادائیگی کے محفوظ نظام سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول بنا سکتے ہیں۔ پاکستانی اسٹارٹ اپس کو بین الاقوامی نمائش، گلوبل ایکسلریٹرز، اور وینچر کیپیٹل نیٹ ورکس تک رسائی دی جائے۔ سرکاری اور نجی شراکت داری سے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ کامیاب پاکستانی اسٹارٹ اپس کی کہانیاں دنیا کے سامنے لا کر پاکستان کو ایک ابھرتی ہوئی ڈیجیٹل مارکیٹ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے”۔
پاکستان فری لانسنگ کی دنیا میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ فائیور، اپ ورک اور دیگر پلیٹ فارمز پر پاکستانی فری لانسرز لاکھوں ڈالر کما رہے ہیں۔ ڈیجی اسکلز اور ای روزگار جیسے حکومتی پروگرامز نے نوجوانوں کو ڈیجیٹل مہارتیں سیکھنے کے بہترین مواقع فراہم کیے ہیں۔
ڈیجیٹل بینکنگ اور فنانشل ٹیکنالوجی بھی ترقی کر رہی ہے۔ ایزی پیسہ، جاز کیش اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس نے مالیاتی شمولیت میں اضافہ کیا ہے۔ لوگ اب روایتی بینکوں پر انحصار کیے بغیر موبائل کے ذریعے ادائیگیاں کر سکتے ہیں، جس سے معیشت میں تیزی آرہی ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بارے میں بات کرتے ہوئے بشریٰ امان ورک صاحبہ نے کہا کہ “پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور ڈیٹا سائنس کے شعبے میں بہت صلاحیت موجود ہے، لیکن اسے ہموار کرنے کے لیے مناسب تعلیمی اور ٹریننگ پروگرامز کی ضرورت ہے۔ ڈیٹا سیکیورٹی اور ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کی کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کے لیے 2025 میں حکومت پنجاب اقدامات کر رہی ہے۔ فری لانسرز کو عالمی مارکیٹ میں کامیاب ہونے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کا استعمال، مستحکم انٹرنیٹ رسائی، اور ڈیٹا سیکیورٹی کی ضرورت ہے۔ ڈیجیٹل سیکیورٹی کے چیلنز اور ڈیٹا پروٹیکشن کا کوئی جامع قانون نہیں ہے، جس کی وجہ سے ڈیٹا لیک اور سائبر حملوں کا خطرہ ہے۔اس کے حل میں وائٹ کالر جابز کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کے ساتھ ساتھ ڈیٹا پروٹیکشن کے لیے جامع قانون بنانا اور سائبر سیکیورٹی کے اقدامات کو بہتر بنانا ضروری ہے خواتین کو ٹیک انڈسٹری میں آگے لانے کے لیے خصوصی تربیتی پروگرامز اور ان کی شرکت کو فروغ دینے کی پالیسیاں بنانی چاہیئے”۔
انہوں نے کہا کہ”تعلیمی اور کاروباری مواقع میں خواتین کی شرکت کو بڑھانےکی ضرورت ہے۔ حکومت کو سرمایہ کاروں کے لیے ٹیکس انسنتھیٹکس اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کی پالیسیاں بنانی چاہئے سٹارٹ اپ انکیوبیشن سینٹرز کی مدد سے نئے کاروباروں کو فروغ دینا اور انہیں بین الاقوامی سطح پر منظر عام پر لانا ضروری ہے اس مسئلہ کے حل میں پاکستان میں آٹھ بڑے انکیوبیشن سینٹرز کو قائم کر دیا گیا ہے جس میں این آئی سی لاہور اور این آئی سی فیصل آباد نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں”۔
پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور توقع ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں نمایاں کردار ادا کرے گی۔ انڈسٹری کے رہنما اس شعبے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے متوازن ریگولیٹری طریقوں کی وکالت کر رہے ہیں۔