آسٹریا کی نئی حکومت نے بدھ کے روز پناہ گزینوں کے لیے فیملی ری یونفیکیشن پر فوری طور پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کا مقصد ملک میں بڑھتی ہوئی امیگریشن کی تشویش کو دور کرنا ہے۔
یہ فیصلہ حکومت کے لیے ایک سخت اقدام ہے جس کا مقصد ملک کے نظام کو پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بچانا ہے اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ان کی گنجائش نہ بڑھ جائے۔
وزیر اعظم ‘کرسچین اسٹوکر’ کی قیادت میں تین جماعتی حکومت نے یہ فیصلہ یورپی یونین کی ایمرجنسی ‘پروویژنز’ کے تحت کیا ہے جس میں قومی سلامتی کے حوالے سے خصوصی تحفظات اٹھائے گئے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ آسٹریا کی سماجی اور انتظامی صلاحیتوں میں پناہ گزینوں کی تعداد کو برداشت کرنے کی حد پہنچ چکی ہے اور ملک کی پناہ گزینی نظام میں مزید بوجھ برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رہی۔
وزیر اعظم اسٹوکر نے بیان دیا ہے کہ “آسٹریا کی صلاحیتوں میں واضح طور پر حد آ چکی ہے، ہم نے اس وقت قدم اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جب ہمارے نظام پہلے ہی اپنی صلاحیت سے زیادہ بھر چکے ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: روس سے یوکرین جنگ پر بات چیت کا آغاز کل ہوگا، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا بیان
حکومت کے مطابق، 2023 اور 2024 کے دوران 18,000 افراد فیملی ری یونفیکیشن کے تحت آسٹریا آ چکے ہیں جن میں 13,000 اسکول جانے والے بچے شامل ہیں۔
تاہم اس فیصلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل آسٹریا کی سربراہ شورہ ہاشمی نے کہا کہ “یہ ایک نیک شگون نہیں جب ایک حکومت اپنے دور اقتدار کا آغاز عالمی قوانین کی خلاف ورزی کے ساتھ کرتی ہے۔”
یہ اقدام آسٹریا میں امیگریشن کے بارے میں بڑھتی ہوئی تشویش کے درمیان سامنے آیا ہے خاص طور پر حالیہ دنوں میں اسلام پسند شدت پسندی سے جڑے واقعات کے بعد۔
ان واقعات میں سب سے نمایاں واقعہ ایک 14 سالہ لڑکے کی ہلاکت تھا جسے ایک شامی پناہ گزین نے چاقو سے زخمی کیا تھا۔
آسٹریا کی حکومت اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ ملک میں پناہ گزینوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے متعلق جو خطرات ہیں ان پر قابو پانے کے لیے یہ قدم ضروری تھا۔
تاہم، اس فیصلے پر عوامی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے، اور دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں اس سے ملک کی پناہ گزینی پالیسی پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔