ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے بدھ کے روز امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے پر مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سے بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
یہ ردعمل اُس وقت آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر کو ایک خط بھیجا جس میں جوہری مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی۔
ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے اپنے خط میں خامنائی سے مذاکرات کی درخواست کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ ایران کے ساتھ دو ہی راستے ہیں ایک تو فوجی طاقت کا استعمال یا پھر ایک معاہدہ جس کے تحت ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔
یہ خط امارات کے صدر کے مشیر انورگرگاش نے ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کو بدھ کے روز حوالے کیا جب دونوں کے درمیان ملاقات ہو رہی تھی۔
تاہم، آیت اللہ خامنائی نے اپنے ردعمل میں کہا کہ ٹرمپ کا مذاکرات کی پیشکش محض “عوام کو بہکانے” کی کوشش ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ میں بجلی کی بندش کے درمیان فلسطینی ‘تباہ کن’ حالات کا شکار
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ امریکا اپنے وعدوں کو نہیں نبھائے گا تو پھر مذاکرات کا کیا فائدہ؟
خامنائی نے اس بات کو واضح کیا کہ “مذاکرات کی پیشکش صرف عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔”
ایران کے سپریم لیڈر نے مزید کہا کہ اگر ایران نے امریکی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کیے تو اس سے “دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا” اور ایران کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔
ان کے مطابق امریکی حکومت کی زیادتیوں کے سامنے جھکنا ایران کے لیے نقصان دہ ہوگا۔
یہ تمام صورتحال اُس وقت سامنے آئی جب 2018 میں صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ طے شدہ 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکا کو دستبردار کر لیا تھا جس کے بعد امریکا نے ایران پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں اور ایران نے ایک سال بعد معاہدے کی شرائط کو توڑنا شروع کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: چین میں ایران کے جوہری پروگرام پر اہم ملاقات، ایران اور روس کے نائب وزرائے خارجہ شریک ہوں گے
ایران کے لیے سپریم لیڈر کا موقف انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ وہ ایرانی ریاست کے تمام فیصلوں میں حتمی اختیار رکھتے ہیں۔
خامنائی نے یہ واضح کیا کہ ایران امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات میں نہیں جائے گا جب تک کہ امریکہ اپنے غیر معقول مطالبات سے باز نہ آجائے۔
اسی دوران، متحدہ عرب امارات جو کہ واشنگٹن کا اہم اتحادی ہے اور ایران کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات بھی ہیں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
دوسری جانب یو اے ای نے کبھی بھی ایران کے ساتھ تعلقات میں تلخیوں کے باوجود تجارتی روابط کو برقرار رکھا ہے اور دبئی ایرانی کاروبار کے لیے ایک اہم تجارتی مرکز کے طور پر کام کرتا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے اس دوران “زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کو برقرار رکھا ہے جس کے ذریعے ایران کو عالمی معیشت سے الگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ ایران کے تیل کے برآمدات میں کمی آئے اور وہ جوہری پروگرام کو ترک کرنے پر مجبور ہو۔
اس تمام صورت حال میں ایران اور امریکا کے تعلقات ایک نیا موڑ اختیار کر چکے ہیں اور اس بات کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ دونوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز اور اس کا مستقبل ابھی تک غیر واضح ہے۔