چین اور روس نے ایران کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے امریکا کے ساتھ ایٹمی مذاکرات کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔
ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی اور عالمی سطح پر جاری تناؤ کے درمیان، چین اور روس نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ مذاکرات صرف “باہمی احترام” کی بنیاد پر ہونے چاہئیں اور اس کے لیے تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔
یہ باتیں اس وقت سامنے آئیں جب چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو، روس کے نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف اور ایران کے نائب وزیر خارجہ کاظم غریب آبادی نے بیجنگ میں ایک اہم ملاقات کے بعد مشترکہ بیان جاری کیا۔
دونوں ممالک نے اس بات کا خیرمقدم کیا کہ ایران نے اپنے ایٹمی پروگرام کو ‘مکمل طور پر پرامن’ مقصد کے لیے تسلیم کیا ہے اور اس کے ایٹمی توانائی کے استعمال کے حق کو ‘مکمل طور پر’ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی فورسز نے غزہ میں مزید دو معصوم بچوں کو شہید کر دیا
2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس میں اپنے ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے بین الاقوامی پابندیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ تاہم 2018 میں امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر انخلا کر لیا جس کے بعد ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی گئیں۔
چین کے نائب وزیر خارجہ ما ژاؤ شو نے اس ملاقات کے بعد کہا کہ چین، روس اور ایران اس بات پر زور دیتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کی جڑ کو حل کرنے کے لیے تمام فریقین کو ‘دباؤ، دھمکی یا طاقت کے استعمال’ سے گریز کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ انہوں نے عالمی سطح پر ایران کے خلاف تمام ‘غیر قانون’ یکطرفہ پابندیوں کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکا کی جانب سے ایران کو ایٹمی مذاکرات کی دعوت کے بعد ایران نے سخت ردعمل ظاہر کیا۔
لازمی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اور برازیل کی عجیب منطق: درخت کاٹ کر سڑک تعمیر
دوسری جانب چند روز قبل امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے ایٹمی مذاکرات کا مطالبہ کیا تھا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ “ایران کے ساتھ دو طریقے ہیں یا تو جنگ ہو گی یا پھر ایک معاہدہ کیا جائے گا”۔
ایران نے اس پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا سے مذاکرات نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر دباؤ ڈالا جائے گا۔
ایرانی صدر مسعود پیزشکیان نے کہا کہ “ہم امریکا کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے جب تک کہ ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہوں۔”
اس تمام صورتحال کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے چھ ارکان کے حالیہ اجلاس پر شدید تنقید کی ہے جس میں ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات کی گئی تھی۔
ضرور پڑھیں: ‘ہم جنگ بندی کی تجویز کو مانتے ہیں لیکن کچھ شرائط ہیں’ ولادیمیر پوتن
ایران نے اس اجلاس کو ‘سلامتی کونسل کے وسائل کا غلط استعمال’ قرار دیا اور کہا کہ یہ اجلاس اس کے ایٹمی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ایران نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام صرف پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ کبھی بھی ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم، بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (IAEA) نے حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو تیزی سے بڑھا رہا ہے اور اس کی سطح تقریبا 90 فیصد تک پہنچ چکا ہے جو جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے ضروری مقدار ہے۔
یہ عالمی تناؤ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں ایران کی ایٹمی سرگرمیاں عالمی طاقتوں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہیں اور چین اور روس نے اس تناظر میں ایران کے ساتھ اپنی حمایت کو مزید مضبوط کیا ہے۔