اپریل 11, 2025 4:30 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

صارفین کے حقوق: قانون کی کتابوں میں قید انصاف

زین اختر
زین اختر

لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں احمد علی ایک نئے برانڈ کا موبائل فون خرید کر خوشی خوشی گھر پہنچے، مگر چند دن بعد ہی فون میں خرابیاں آنا شروع ہوگئیں۔ جب وہ کمپنی کے شکایتی مرکز گئے تو انہیں تسلی بخش جواب نہ ملا۔ کئی چکر لگانے کے باوجود انہیں نہ تو نیا فون ملا اور نہ ہی خرابی دور کی گئی۔ یہ واقعہ صرف احمد علی تک محدود نہیں، بلکہ دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ ہونے والے استحصال کی ایک جھلک ہے۔ ہر سال 15 مارچ کو منایا جانے والا عالمی یومِ صارف ایسے ہی معاملات کو اجاگر کرنے کے لیے ایک یاد دہانی ہے۔

1962 میں امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے پہلی بار صارفین کے حقوق کو سرکاری طور پر تسلیم کیا اور ایک ایسا تصور پیش کیا جس نے آگے چل کر عالمی سطح پر مقبولیت حاصل کی۔ 1985 میں اقوام متحدہ نے صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے رہنما اصول وضع کیے، مگر ان قوانین کے باوجود آج بھی دنیا بھر میں صارفین کے ساتھ دھوکہ دہی کے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں۔

سنہ 2013 میں انڈیا میں ایک مشہور میک اپ برانڈ پر صارفین کو جعلی پروڈکٹس بیچنے کا الزام لگا، جس کے بعد عدالت نے برانڈ پر لاکھوں روپے جرمانہ عائد کیا۔ اسی طرح 2018 میں چین میں ایک مشہور فوڈ چین کو غیر معیاری خوراک فراہم کرنے کے الزام میں بند کر دیا گیا تھا۔ ایسے ہی ایک معاملے میں برطانیہ میں ایک مشہور برانڈ کی چاکلیٹس میں غیر معیاری اجزاء پائے گئے، جس کے بعد کمپنی کو کروڑوں پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔

پاکستان میں بھی صارفین کے حقوق کے حوالے سے کئی قابل ذکر واقعات سامنے آئے ہیں۔ 2019 میں لاہور میں ایک معروف کپڑے کی برانڈ پر زائد قیمتیں وصول کرنے کا الزام لگا، جس پر کنزیومر کورٹ نے کارروائی کی اور جرمانہ عائد کیا۔ 2021 میں ایک مشہور ڈیلیوری سروس کے خلاف صارفین نے شکایت کی کہ انہیں آرڈر کردہ کھانے کے بجائے غیر معیاری اور خراب کھانے فراہم کیے گئے۔ ان واقعات کے باوجود، زیادہ تر صارفین اپنی حق تلفی کے خلاف آواز بلند کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔

پاکستان میں صارفین کے تحفظ کے لیے کچھ قوانین موجود ہیں، جیسے کہ “کنزیومر پروٹیکشن ایکٹ،” لیکن ان کے نفاذ کی کمی کے باعث بہت سے صارفین اپنے حقوق سے ناواقف رہتے ہیں۔ کراچی میں ایک مشہور آن لائن اسٹور کے خلاف کئی شکایات درج ہوئیں کہ انہوں نے آرڈرز تو لیے مگر صارفین کو پروڈکٹس ڈیلیور نہیں کیں۔ تحقیقات کے بعد کمپنی پر پابندی لگا دی گئی، مگر لاکھوں صارفین کا پیسہ ضائع ہو چکا تھا۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک نجی ہاؤسنگ اسکیم نے لوگوں کو بہترین سہولیات کی فراہمی کا وعدہ کیا مگر کئی سال گزرنے کے باوجود صارفین کو نہ تو پلاٹس ملے اور نہ ہی ان کی رقوم واپس کی گئیں۔

پاکستان میٹرز سے ہائی کورٹ کے وکیل رانا عمران لیاقت نے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں صارفین کے حقوق قانونی طور پر موجود ہیں لیکن لوگ قانونی عمل میں پھنسنا نہیں چاہتے۔ کیوں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ مسلسل کورٹ کچہری کے چکر لگائیں گے اور سالوں انتظار کریں گے۔ اس کے بعد بھی کمپنیاں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے کیس جیت جائیں گی اور آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا”۔

عالمی یومِ صارف محض ایک دن نہیں بلکہ ایک تحریک ہے جس کا مقصد صارفین کو ان کے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا اور حکومتوں و کاروباری اداروں کو ان حقوق کے تحفظ پر مجبور کرنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں صارفین کے پاس ایک طاقتور ہتھیار سوشل میڈیا ہے، جہاں وہ اپنی شکایات کو دنیا بھر میں پھیلا سکتے ہیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صارفین کی جانب سے چلائی جانے والی سوشل میڈیا مہمات نے بڑی کمپنیوں کو اپنی پالیسی تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2022 میں ایک عالمی فاسٹ فوڈ چین کو صارفین کی شکایات کے بعد اپنی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔

رانا عمران لیاقت کا مزید کہنا تھا کہ “عوام کو سوشل میڈیا کی طاقت استعمال کرنی چاہیے۔ آج کل کے دور میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا یہی سب سے مؤثر ترین طریقہ ہے”۔

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے شعبہِ سوشیالوجی سے وابستہ پروفیسر اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں صارفین کو ان کے حقوق دلانے کے لیے قانونی عمل درآمد، حکومتی نگرانی، اور عوامی آگاہی ضروری ہے۔ مضبوط قوانین بنا کر ان پر سختی سے عمل کیا جائے تاکہ ناقص مصنوعات اور دھوکہ دہی کا سدباب ہو۔ شکایات کے ازالے کے لیے فوری اور شفاف نظام قائم کیا جائے۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے صارفین کے حقوق پر آگاہی مہم چلائیں تاکہ لوگ اپنے حقوق سے باخبر ہوں۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر صارفین کو ریویو اور شکایات کا موقع دیا جائے۔ اگر عوام، حکومت، اور نجی شعبہ مل کر کام کریں تو صارفین کو ان کے حقوق دلانا ممکن ہو سکتا ہے۔

بہتر مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ حکومت صارفین کے حقوق کے قوانین کو مزید سخت کرے، ان کے نفاذ کو یقینی بنائے، اور عوام میں شعور اجاگر کرے۔ صارفین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی آگاہی حاصل کریں اور کسی بھی غیر معیاری یا دھوکہ دہی پر مبنی سروس کے خلاف شکایت درج کرائیں۔

پروفیسر اکرام اللہ نے مزید کہا کہ “صارفین کو دھوکہ دہی سے بچانے کے لیے شفاف قوانین کا نفاذ، سخت جرمانے، اور عوامی شعور بیدار کرنا ضروری ہے۔ آن لائن اور آف لائن کاروباروں کی نگرانی بڑھائی جائے اور شکایات کے فوری ازالے کے لیے ہیلپ لائنز بنائی جائیں۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر دھوکہ دہی کے طریقوں سے آگاہی مہم چلائی جائے تاکہ لوگ خود محتاط رہیں”۔

ماہرین کے مطابق، صارفین کے حقوق کے مکمل نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ قوانین پر سختی سے عمل کیا جائے، کمپنیوں پر کڑی نگرانی رکھی جائے اور عوام کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ تعلیم دی جائے۔ کئی ترقی یافتہ ممالک میں کنزیومر کورٹس نہایت فعال ہیں اور صارفین کی شکایات پر فوری کارروائی کی جاتی ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ان قوانین کا نفاذ اب بھی ایک چیلنج ہے۔

کیا ہم ایک ایسے مستقبل کا تصور کر سکتے ہیں جہاں ہر صارف محفوظ ہو، ہر پروڈکٹ معیاری ہو اور ہر کمپنی جوابدہ ہو؟ شاید اس کا جواب ہمارے آج کے اقدامات میں پوشیدہ ہے۔ اگر ہم آج اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے، تو کل ایک بہتر اور محفوظ مارکیٹ کا قیام ممکن ہو سکے گا۔

 

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس