امریکا نے جنوبی افریقہ کے سفیر ‘ابراہم رسول’ کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے مطابق رسول ایک ‘نسلی تفریق پیدا کرنے والے سیاستدان’ ہیں جو امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شدید نفرت رکھتے ہیں۔
یہ اقدام ایک سفارتی بحران کی صورت اختیار کر چکا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں کشیدگی اور بے اعتمادی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
روبیو نے اس واقعے کو سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ “جنوبی افریقہ کے سفیر اب امریکا میں مزید خوش آمدید نہیں ہیں۔
ابراہم رسول ایک نسلی تفریق پیدا کرنے والے سیاستدان ہیں جو نہ صرف امریکا سے نفرت کرتے ہیں بلکہ وہ ٹرمپ کی قیادت سے بھی نفرت کرتے ہیں۔”
انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جنوبی افریقہ کا سفیر امریکا میں اپنے سیاستدانوں کے ساتھ جڑنے میں ناکام رہا ہے اور اس کے رویے نے دوطرفہ تعلقات میں مزید مشکلات پیدا کی ہیں۔
یہ تنازعہ اُس وقت شروع ہوا جب جنوبی افریقہ کے سفیر رسول نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو “سفید نسل پرستی کی تحریک” کا رہنما قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیں: سری لنکا میں جنگلی حیات کی مردم شماری: جانوروں کی گنتی سے کھیتوں کا تحفظ کیسے ممکن؟
روبیو نے ایک مضمون شیئر کیا جو ویب سائٹ بریٹبارٹ سے لیا گیا تھا جس میں رسول کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ٹرمپ جنوبی افریقہ کے سفید فام افراد کے خلاف خطرہ بن چکے ہیں۔
اس کے جواب میں جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلے کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے بتایا کہ جنوبی افریقہ کے سفیر کو 21 مارچ تک امریکا سے روانہ ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں امریکی حکام نے یہ بھی کہا کہ جنوبی افریقہ کی حکومت کی اسرائیل کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف میں مقدمے کی حمایت، ساتھ ہی روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں اضافہ دونوں ممالک کے تعلقات کی تنزلی کی اہم وجوہات میں شامل ہیں۔
جنوبی افریقہ کی حکومت نے اس فیصلے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس کے باوجود امریکا کے ساتھ ایک مفید اور دو طرفہ تعلقات کے لیے کوشاں رہیں گے۔
لازمی پڑھیں: امریکا کی جنوب مشرقی ریاستوں میں شدید طوفان: 19افراد ہلاک، مزید طوفان متوقع
جنوبی افریقہ کے صدر سیرل رامافوسا نے بھی اپنی حکومت کے ارادے کا اعادہ کیا کہ وہ ملک میں زمین کی ملکیت میں مساوات کو بڑھانے کے لیے کام کر رہے ہیں، اور اس کا مقصد نسل پرستانہ امتیاز کو ختم کرنا ہے۔
حالیہ برسوں میں جنوبی افریقہ نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن کے تحت زمین کو عوامی مفاد میں ضبط کیا جا سکتا ہے جس پر کئی بین الاقوامی ادارے تنقید کر چکے ہیں۔
سابق امریکی سفیر پیٹرک گاسپارڈ نے اس بحران پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات اس وقت اپنے نچلے ترین نقطے پر پہنچ چکے ہیں اور یہ وقت ہے کہ دونوں ممالک اس تعلق کو بحال کرنے کے لیے سخت محنت کریں کیونکہ اس کا عالمی سطح پر اثر پڑ سکتا ہے۔”
یہ ٖفیصلہ صرف امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات پر اثرانداز نہیں ہو رہا بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ دونوں ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں تضاد عالمی سیاست کے اہم مسائل سے جڑا ہوا ہے۔
امریکا اور جنوبی افریقہ کے تعلقات کی اس تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کو اپنے باہمی اختلافات کو حل کرنے کے لیے فوری طور پر مذاکرات کی میز پر آنا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر اس بحران کے مزید پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔