بنگلادیش کی عدالت نے 2019 میں ایک طالب علم کے قتل کے معاملے میں 20 سابق یونیورسٹی طلبہ کی سزائے موت کی توثیق کر دی ہے جنہوں نے اس طالب علم کو اس کے سوشل میڈیا پر ملک کے سابقہ حکومت کے خلاف تنقید کرنے پر قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے نے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑادی تھی اور اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج کی لہر نے جنم لیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق، یہ ہولناک قتل 2019 میں بنگلہ دیش یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (بی یو ای ٹی) کے 21 سالہ طالب علم ابرار فہاد کا تھا۔
فہاد نے ایک فیس بک پوسٹ میں اس وقت کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت پر شدید تنقید کی تھی، جس میں انہوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کے تقسیم معاہدے پر اعتراض کیا تھا۔
جس کے چند گھنٹوں کے اندر، اس طالب علم کو 25 افراد پر مشتمل ایک گروہ نے تشدد کا نشانہ بنایا، جن میں سے تمام افراد بنگلہ دیش چٹرا لیگ کے ممبر تھے، جو حکومتی جماعت، عوامی لیگ کی طلبہ ونگ ہے۔
ان طلبہ نے فہاد کو کرکٹ بیٹس سے تقریباً چھ گھنٹے تک پیٹا تھا، جس کے نتیجے میں اس کی موت ہو گئی۔
یہ واقعہ نہ صرف فہاد کے خاندان کے لیے ایک ذاتی سانحہ تھا بلکہ پورے ملک میں ایک سیاسی اور سماجی مسئلہ بن گیا۔
فہاد کے والد، برکات اللہ نے عدالتی فیصلے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “میں مطمئن ہوں، اور امید کرتا ہوں کہ قانونی عمل جلد مکمل ہو گا اور انصاف ملے گا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ “میں ان والدین کو ملامت نہیں کرنا چاہتا جنہوں نے اپنے بیٹوں کو بہترین یونیورسٹیوں میں بھیجا، مگر انہوں نے غلط سیاست میں ملوث ہو کر اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کر لیا۔”
فہاد کے قتل نے پورے بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کی لہر کو جنم دیا، جس کے بعد وزیر اعظم حسینہ واجد نے قاتلوں کے لیے سخت سزا کا وعدہ کیا تھا۔
اب، عدالت نے 20 مجرموں کو سزائے موت سنائی ہے جبکہ پانچ افراد کو عمر قید کی سزا دی ہے۔ تاہم، ان مجرموں کو اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے کے بعد، اٹارنی جنرل محمد اسدالزماں نے صحافیوں کو بتایا کہ “اعلیٰ عدالت نے نچلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے، اور یہ کہ مجرموں کو اپنے فیصلے کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے۔”
تاہم، ان میں سے چار مجرم اب بھی فرار ہیں، جن میں سے ایک، منتصر آل جیمی، جس نے 6 اگست کو ایک اعلیٰ سیکیورٹی جیل سے فرار ہو کر ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا تھا۔
بنگلہ دیش میں سزائے موت معمول کی بات ہے اور اس وقت سینکڑوں افراد موت کی سزا کے منتظر ہیں اور سزائیں ہمیشہ پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہیں، جو برطانوی نوآبادیاتی دور کی میراث ہے۔
فہاد کے قتل کیس میں سزاؤں کی توثیق کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ ملک میں تشدد کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو روک پائے گا؟
مزید پڑھیں: امریکا کے حوثیوں پر ہوائی حملے جاری، پانچ بچوں سمیت 53 افراد جاں بحق ہوگئےا