امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےامریکی عانت سے چلنے والے میڈیا ادارے، جیسے کہ وائس آف امریکا ( وی اواے) اور ریڈیو فری ایشیا کی ٹرانسمیشن کو ختم کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے ہیں ، جس پر چینی قوم اور سرکاری میڈیا نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔
عالمی نشریاتی ادارہ سی این این کے مطابق چینی حکومت نے طویل عرصے سے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری ایشیا کو انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے نشانہ بنایا ہے۔ جب ٹرمپ انتظامیہ ان اداروں کو بند کر رہی ہے، بیجنگ اس فیصلے پر خوش نظر آ رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب چین اپنے سرکاری میڈیا کی عالمی رسائی کو بڑھانے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام اخبار گلوبل ٹائمز نے پیر کو ایک اداریے میں وائس آف امریکا کو ‘جھوٹ کا کارخانہ’ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اس کی چین سے متعلق رپورٹنگ کا ریکارڈ حیرت انگیز حد تک ناقص ہے۔
اخبار نے مزید کہا کہ سنکیانگ میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں، بحیرہ جنوبی چین کے تنازعات، تائیوان، ہانگ کانگ، کورونا وائرس وبا اور چینی معیشت سے متعلق وائس آف امریکا کی رپورٹنگ خاص بیانیے کے مطابق ہوتی رہی ہے۔
وائس آف امریکہ کی چین سے متعلق کوریج دہائیوں پر محیط ہے۔ 1989 میں تیانمن اسکوائر میں جمہوریت نواز مظاہروں کے دوران، اس کے چینی زبان کے ریڈیو نشریات چینی عوام کے لیے غیر سنسر شدہ معلومات کا ایک اہم ذریعہ بن گئے تھے۔ (VOA نے 2011 میں چینی زبان میں ریڈیو نشریات بند کر دی تھیں، لیکن اس کی چینی زبان کی ویب سائٹ پیر تک آن لائن موجود تھی۔
سوشل میڈیا پر چینی تجزیہ کاروں نے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری ایشیا کی ممکنہ بندش کا جشن منایا۔ گلوبل ٹائمز کے سابق ایڈیٹر ان چیف ہو شی جن نے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم وائیبو پر لکھا کہ “وائس آف امریکہ مفلوج ہو چکا ہے! اور ریڈیو فری ایشیا، جو چین کے خلاف اتنا ہی زہریلا تھا، بھی بند ہو رہا ہے۔ یہ واقعی خوشی کی بات ہے”
ایک اور چینی تجزیہ کار نے وائس آف امریکا اور ریڈیو فری ایشیا کو ‘رنگین انقلابات کے لیے بدنام زمانہ پروپیگنڈا مشینیں ‘قرار دیا، جو 2000 کی دہائی میں سابق سوویت یونین اور بلقان میں حکومتوں کے خلاف عوامی مظاہروں میں کردار ادا کر چکی ہیں۔
دیگر صارفین نے طنزاً ٹرمپ کو “چوان جیانگو” (چینی قوم کا معمار) کہا، اس اشارے کے ساتھ کہ ان کی پالیسیوں نے بیجنگ کو عالمی سطح پر فائدہ پہنچایا ہے۔

صدر شی جن پنگ کے دور میں، چین نے اپنے سرکاری میڈیا کی رسائی اور اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے تاکہ عالمی سطح پر اپنا بیانیہ مضبوط کر سکے۔
2018 میں، بیجنگ نے تین ریاستی میڈیا اداروں کو ضم کر کے ایک بڑا میڈیا نیٹ ورک قائم کیا، جس کا نام وائس آف چائنا’ رکھا گیا۔