عالمی ادارہ صحت نے پیر کے روز کہا کہ امریکا کی جانب سے غیر ملکی امداد روکنے کے فیصلے سے آٹھ ممالک میں ایچ آئی وی کے علاج کی فراہمی میں شدید خلل پڑا ہے۔ ہیٹی، کینیا، لیسوتھو، جنوبی سوڈان، برکینا فاسو، مالی، نائیجیریا اور یوکرین جلد ہی ان ادویات کی قلت کا سامنا کر سکتے ہیں، جو ایچ آئی وی کے مریضوں کے لیے جان بچانے والی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے خبردار کیا کہ ایچ آئی وی پروگراموں میں رکاوٹ سے پچھلے 20 سال کی پیش رفت ضائع ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس فیصلے کے نتیجے میں 10 ملین نئے ایچ آئی وی کیسز اور تین ملین اموات ہو سکتی ہیں۔
ایچ آئی وی، پولیو، ملیریا اور تپ دق کے خلاف جاری کوششیں بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی امداد کی بندش سے متاثر ہو رہی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، اس کی خسرہ اور روبیلا لیبارٹری نیٹ ورک، جس میں دنیا بھر میں 700 سے زائد سائٹس شامل ہیں، بھی جلد بند ہو سکتا ہے۔ یہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ میں خسرہ کی وبا دوبارہ سر اٹھا رہی ہے۔
ٹیڈروس گیبریئس نے کہا کہ امریکہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اگر کسی ملک کی فنڈنگ واپس لے رہا ہے تو یہ عمل منظم اور انسانی بنیادوں پر ہو تاکہ متاثرہ ممالک کو متبادل وسائل تلاش کرنے کا موقع ملے۔
ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا ہے کہ فنڈنگ کی کمی افغانستان میں 80 فیصد ضروری صحت کی خدمات کو بند کرنے پر مجبور کر سکتی ہے۔ 4 مارچ تک، 167 صحت کی سہولیات پہلے ہی بند ہو چکی تھیں، اور اگر فوری مداخلت نہ کی گئی تو جون تک مزید 220 سے زائد مراکز بند ہو سکتے ہیں۔
امریکا کے ڈبلیو ایچ او سے نکلنے کے منصوبے نے اقوام متحدہ کی اس ایجنسی کو بھی شدید مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ عام طور پر ڈبلیو ایچ او کو اپنی سالانہ فنڈنگ کا تقریباً پانچواں حصہ امریکہ سے ملتا ہے، لیکن اب اسے ملازمتوں کو منجمد کرنے اور بجٹ میں کٹوتیاں کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی کارروائیوں کے لیے اپنے بجٹ میں کمی کر رہا ہے۔ 2026-2027 کے بجٹ میں یہ فنڈ 1.2 بلین ڈالر سے کم کر کے 872 ملین ڈالر کر دیا جائے گا۔