نوجوانوں کی سیاست میں دلچسپی سیاسی رجحانات کو جنم دیتی ہیں۔ آج کےنوجوان سیاست اور ریاستی امورپر کھل کر بات بھی کرتے ہیں اور سیاست کے بارے میں باخبر بھی ہیں، متفکر بھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس کا اظہار بھی کرتے ہیں، جس سے نوجوان دلچسپی بڑھنے کی وجہ سیاست میں مزید حصہ ڈال رہے ہیں۔
پاکستان میں جاگیردرانہ اور روایتی سیاست سے چھٹکارا حاصل کرتے ہوئے نوجوان خود سیاست میں حصہ لے رہے ہیں۔ نوجوان سیاستدان اپنی منفرد شناخت، متحرک سوچ، اور نوجوانوں کے مسائل کو بہتر انداز میں اجاگر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
اس حوالے سے ’پاکستان میٹرز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر اسجد ممتاز نے کہا ہے کہ نوجوانوں کا سیاست میں دلچسپی لینا اچھا رجحان ہے، یہ جمہوری نظام کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، نوجوانوں کا فرسودہ نظام اور پرانے سیاستدانوں سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔
نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی دلچسپی نے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت پہلو کو جنم دیا ہے جس میں سٹوڈنٹ یونین کا بڑا اہم کردار سمجھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں سٹوڈنٹ یونین پر بین ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی قیادت میں خلا پیدا کر دیا ہے، اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر اسجد ممتاز نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ سٹوڈنٹس یوننینز بحال کرکے انتخابات کروائے جائیں تاکہ نوجوان قیادت سیاست میں مزید دلچسپی پیدا ہو۔
پاکستان کی سیاست بالخصوص انتخابات میں نوجوان ووٹرز کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد وشمار کے مطابق 18برس سے لے کر 35برس تک کے ووٹرز کی تعدادپانچ سے چھ کروڑ کے درمیان ہے ،جو کہ کل ووٹرز میں سے 46فیصد نوجوان 18 سے 35 سال کے ووٹرز ہیں ۔
پنجاب یونیورسٹی میں سیاسیات کی طالبہ نگزہ اکبر نے پاکستان میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کے حوالے سے ’پاکستان میٹرز‘ کو بتایا کہ پاکستان میں نوجوانوں کی سیاست میں بڑھتی ہوئی دلچسپی تبدیلی لا رہی ہے۔ 2024 کے انتخابات میں نوجوانوں کی شمولیت نے کئی حلقوں کے نتائج پر اثر ڈالا، کیونکہ وہ پہلے سے زیادہ متحرک ہو چکے ہیں۔ اگر نوجوان اسی طرح سیاست میں شامل رہے، تو سیاستدانوں کو عوامی مسائل حل کرنے پر زیادہ توجہ دینی ہوگی اور شخصیت پرستی کی جگہ کارکردگی کی سیاست آ سکے گی۔
پاکستان میں حالیہ انتخابات میں کئی نوجوانوں نے حصہ لیا تھا جو کہ پاکستانی سیاست کے بدلتے رحجانات کے لیے بہترین مثال ہیں، اس حوالے سے نگزہ اکبر نے کئی نوجوانوں کے مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ مثال 27 سالہ صابزادہ میر جمال رئیسانی نے حلقہ این اے 264 سےپاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے امیدوار کے طور پربلوچستان نیشنل پارٹی کے اختر مینگل کے خلاف الیکشن لڑا اور جیت کر سب سے کم عمر پاکستان قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ثانیہ عاشق کو 25 سال کی عمر میں2018 کے عام انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر پاکستان مسلم لیگ ن کی میدوار کے طور پر پنجاب اسمبلی کے لیے منتخب کیا گیا اور اب بھی ثانیہ عاشق پنجاب اسمبلی کی سب سے کم عمر ممبر ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی برائے اسپیشل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ مقرر ہیں،اس کے علاوہ 27 سالہ نوجوان معاذ محبوب ایم کیو ایم کے امیدوار کے طور پر پی ایس 127 میں منتخب ہوئے اور پاکستانی سیاست کے بدلتے رحجانات کے لیے بہترین مثال ہیں۔
کم عمر سیاستدانوں کی کامیابی صرف نوجوانوں کے لیے ایک مثال نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ سیاستدان روایتی سیاست کے خلاف نئی سوچ، شفافیت، اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نوجوان ووٹرز کے تعاون اور جدید ذرائع کے استعمال نے انہیں قومی منظرنامے میں نمایاں مقام دیا ہے اور اس سے پاکستان میں عرصہ دراز سے چلنے والے جاگیر درانہ نظام کو شکست دے کر نوجوانوں کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
سیاست کی طلبہ نگزہ اکبر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جاگیردارانہ سیاست کی جڑیں بہت گہری ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں نوجوان سیاستدان اس رجحان کو کمزور کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، علی زیدی، مصطفیٰ نواز کھوکھر، اور زرتاج گل جیسے سیاستدان ایسے خاندانوں سے نہیں آتے جن کا سیاست میں پرانا اثر و رسوخ رہا ہو، لیکن وہ اپنی محنت سے سیاست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کے علاوہ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کئی نوجوان سیاستدان ابھرے، جو اپنے علاقوں کے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ اگر نوجوان قیادت کو عوام کی حمایت ملتی رہی، تو پاکستان میں خاندانی سیاست کا اثر کم ہو سکتا ہے اور میرٹ پر سیاست ممکن ہو سکتی ہے
کسی بھی جمہوری حکومت میں نوجوانوں کا ٹرن آؤٹ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے لیکن پاکستان میں یہ الٹ ہے ۔ 2018 اور 2024 کے الیکشن میں نوجوانوں نے پہلے کی نسبت زیادہ ووٹ ڈالے ۔ نوجوانوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ وہ روایتی سیاستدانوں کے بجائے نوجوان سیاست دانوں کوزیادہ ترجیع دیتے ہیں، جو کہ پاکستانی سیاست کو ایک بہتر موڑ کی طرف لے کر جا رہی ہے۔
نگزہ اکبر اکبر نے نوجواں کی سیاست میں اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان ووٹرز اگر سمجھداری سے ووٹ ڈالیں، تو سیاست میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔ 2024 کے انتخابات میں دیکھا گیا کہ کئی حلقوں میں نوجوان ووٹرز کے رجحانات نے نتائج پر اثر ڈالا، خاص طور پر شہری علاقوں میں جہاں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے زیادہ ووٹ کاسٹ کیے۔ اگر وہ کارکردگی پر ووٹ ڈالیں، تو سیاست میں روایتی خاندانوں اور شخصیت پرستی کا زور ٹوٹ سکتا ہےاور عوامی مفاد پر مبنی فیصلے ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر نوجوان ووٹ ڈالنے کو ترجیح دیں، تو انتخابی دھاندلی کم ہو سکتی ہے، کیونکہ زیادہ ٹرن آؤٹ شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔
پاکستانی سیاست میں نوجوانوں کی دلچسپی اور شمولیت ایک نئے دور کا آغاز کر رہی ہے۔ جہاں ماضی میں سیاست پر روایتی اور جاگیردارانہ نظام کا غلبہ تھا، وہیں اب نوجوان ووٹرز اور سیاستدان ملکی سیاست کے رخ کو تبدیل کر رہے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں نوجوان ووٹرز کے زیادہ متحرک ہونے اور کم عمر سیاستدانوں کے کامیابی حاصل کرنے سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ ملک میں سیاسی شعور اور رجحانات میں نمایاں تبدیلی آ رہی ہے۔