اپریل 11, 2025 3:55 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

ڈیجیٹل کیش: انڈیا کی ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ بڑھتا سائبر فراڈ، معیشت کو کتنا بڑا خطرہ؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ڈیجیٹل کیش: انڈیا کی ڈیجیٹل ترقی کے ساتھ بڑھتا سائبر فراڈ، معیشت کو کتنا بڑا خطرہ؟

انڈیا کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور اس میں ایک بڑی وجہ عوام کی بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل لین دین کی سرگرمیاں ہیں۔

جہاں ایک طرف انڈین شہری پارکنگ کی فیس، سگریٹ یا یہاں تک کہ پھلوں اور سبزیوں کے پش کارٹ میں بھی ڈیجیٹل پیمنٹ کا استعمال کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ایک تاریک پہلو ‘ سائبر فراڈ’ بھی سامنے آ رہا ہے۔

دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت انڈیا میں روزانہ سب سے زیادہ ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں جس سے نہ صرف معیشت کو تقویت مل رہی ہے بلکہ لوگوں کو مالی شمولیت کا بھی موقع مل رہا ہے۔

انڈین وزارت خزانہ نے اس ترقی کو سراہا ہے اور اسے “کل کے لیے ترقی کا انجن” قرار دیا ہے۔ مرکزی بینک نے بھی اس ترقی کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انڈیا کی معیشت کے لیے ایک نیا دور ثابت ہو سکتا ہے۔

لیکن، بدقسمتی سے اس خوشحال منظر کے ساتھ ایک افسوسناک حقیقت بھی جڑی ہوئی ہے جو کہ ‘ڈیجیٹل فراڈ’ کی بڑھتی ہوئی تعداد کی شکل میں سامنے آرہی ہے۔

گزشتہ سال انڈیا میں ہونے والی سائبر فراڈ کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ان میں سے بعض واقعات اتنے پیچیدہ اور خطرناک ہیں کہ یہ کسی فلم سے کم نہیں لگتے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کے جنگ بندی معاہدہ توڑتے ہوئے غزہ پر حملے، مزید 400 معصوم افراد شہید

ایسا ہی ایک واقعہ انڈین ٹیکسٹائل کے ایک بڑے تاجر کا تھا جس نے 8 لاکھ 30 ہزار ڈالر سے زیادہ کی رقم کا نقصان اٹھایا۔

ان سکیمرز نے اسے ایک جعلی سپریم کورٹ کی سماعت میں طلب کیا اور دھمکی دی کہ اگر اس نے پیسہ نہ دیا تو اسے جیل بھیج دیا جائے گا۔

یہ ایک نیا اور خطرناک طریقہ تھا جس میں جعلسازی اور ٹیکنالوجی کا بے دریغ استعمال کیا گیا تھا۔

وزارت خزانہ کے مطابق پچھلے مالی سال میں ہائی ویلیو سائبر فراڈ کی تعداد گزشتہ سال سے چار گنا زیادہ ہو گئی ہے جب کہ مرکزی بینک نے بتایا ہے کہ صرف ڈیجیٹل پیمنٹس سے ہونے والے فراڈ کی مالیت 175 ملین ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔

یہ صرف ایک مثال ہے جبکہ انڈیا میں گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران متعدد ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جہاں شہریوں کو جعلی ملازمت کے آفرز کے ذریعے میانمار اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں بھیجا گیا تھا جہاں انہیں سائبر کرائمز میں ملوث ہونے پر مجبور کیا گیا۔

انڈین حکومت نے ان میں سے تقریبا 550 افراد کو بازیاب کروا لیا تھا مگر ابھی بھی سینکڑوں افراد اس خطرناک دھوکے کا شکار ہو کر وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔

لازمی پڑھیں: زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، مجموعی مالیت 15 ارب 92 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی

دوسری جانب اے آئی (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجیز نے سکیمرز کو ایسا طاقتور ہتھیار دیا ہے کہ وہ جعلی پولیس اسٹیشنز اور حتی کہ جعلی عدالتی سماعتیں تک قائم کر سکتے ہیں۔

اس بارے میں انڈین سائبر کرائم کے ماہر ‘پون دگل’ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ “ہم سائبر کرائمز کے ایک سنہری دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ڈارک ویب اور بے انتہا ڈیٹا لیک ہونے کی وجہ سے مالی فراڈ کی شرح غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔”

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود بھارت میں سائبر سیکیورٹی کی سطح میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اگر بینکوں اور فن ٹیک کمپنیوں نے سائبر سیکیورٹی میں سرمایہ کاری نہ کی تو اس بحران میں مزید شدت آ سکتی ہے۔

مزید برآں، پولیس افسران کو جدید ٹیکنالوجی سے آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ایسے فراڈ کا بروقت پتہ لگا سکیں۔

مرکزی بینک کے گورنر ‘سنجے ملہوترا’ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ “ادائیگی کے نظام کی حفاظت اور سیکیورٹی کی سطح کو بہتر بنانا ابھی تک ایک جاری عمل ہے اور اس میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔”

انڈیا میں ڈیجیٹل معیشت کا بڑھتا ہوا اثر اقتصادی ترقی کے لیے خوش آئند ہے، مگر یہ بے شمار چیلنجز اور خطرات بھی اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔

مزید پڑھیں: کیا روزہ داروں کا خرچ پاکستانی معیشت کو سہارا دیتا ہے؟

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس