Follw Us on:

متنازع توشہ خانہ: وفاقی حکومت کا نئے قوانین بنانے کا فیصلہ

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

پاکستان میں غیر ملکی معززین سے ملنے والے تحائف، جنہیں عمومی طور پر توشہ خانہ کہا جاتا ہے، ماضی میں کئی تنازعات کا شکار رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں یہ معاملہ اس وقت شدید بحث کا موضوع بنا جب سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس کیس میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے نے ملکی سیاست میں ہلچل مچادی اور توشہ خانہ کے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

ان تنازعات کے تناظر میں وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے حوالے سے نئے ضوابط کا مسودہ تیار کیا ہے، جس کا مقصد غیر ملکی دوروں کے دوران سرکاری عہدیداروں اور سربراہان مملکت کو تحائف قبول کرنے سے روکنا ہے۔ ان مجوزہ قوانین کے تحت، اگر وفاقی کابینہ سے منظوری مل جاتی ہے، تو بیرون ملک تعینات پاکستانی سفارت کاروں پر بھی ان پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی ذمہ داری عائد ہوگی۔

پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو دی جانے والی بریفنگ کے دوران کابینہ کے سیکریٹری کامران علی افضل نے وضاحت کی کہ موجودہ قوانین کے مطابق غیر ملکی دوروں کے دوران تحائف قبول کیے جا سکتے ہیں۔ تاہم، حکومت ایک جامع پالیسی تشکیل دے رہی ہے جس میں تجویز دی گئی ہے کہ سرکاری عہدیدار غیر ملکی دوروں کے دوران تحائف وصول نہ کریں۔

کامران علی افضل نے مزید کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں توشہ خانہ کے حوالے سے مختلف پالیسیاں رائج ہیں۔ ان کے مطابق، مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں تحائف قبول کرنے کے قوانین نسبتاً نرم ہیں، جبکہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک میں تحائف کی ایک مخصوص مالیت مقرر کی گئی ہے جس سے زیادہ مالیت کے تحائف کو قبول کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

یہ نئی پالیسی اس پس منظر میں متعارف کروائی جا رہی ہے کہ پاکستان میں ماضی میں توشہ خانہ سے متعلق کیسز نے بڑے سیاسی اور قانونی تنازعات کو جنم دیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سرکاری افسران اور سیاستدان غیر ملکی دوروں کے دوران قیمتی تحائف حاصل کر کے انہیں ذاتی ملکیت میں تبدیل کر لیتے ہیں، جس سے شفافیت اور احتساب پر سوالات اٹھتے ہیں۔

توشہ خانہ قوانین میں مجوزہ ترامیم کا مقصد ایسے تنازعات کو ختم کرنا اور سرکاری سطح پر تحائف کے تبادلے کے عمل کو زیادہ شفاف بنانا ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت تحائف کے حوالے سے سخت اصول وضع کیے جائیں گے، تاکہ کسی بھی عہدیدار کو ذاتی مفاد کے لیے ریاستی عہدے کا ناجائز فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس نئی پالیسی پر عملی طور پر کس حد تک عمل درآمد کیا جائے گا اور کیا یہ ملک میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو پائے گی یا نہیں۔ تاہم، یہ ایک اہم پیش رفت سمجھی جا رہی ہے جو مستقبل میں توشہ خانہ سے جڑے تنازعات کو روکنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

 

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس