Follw Us on:

استنبول میں احتجاج کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
استنبول میں احتجاج کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو گرفتار کرلیا گیا

استنبول اور دیگر شہروں میں ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرنے والے 10 صحافیوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جن میں ایک ‘اے ایف پی’ فوٹوگرافر بھی شامل ہے۔

اس واقعے پر انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا کہ “پیر کے روز مختلف شہروں میں پولیس آپریشنز کے دوران ان صحافیوں کو حراست میں لیا گیا۔”

پولیس کی کارروائی کا آغاز اس وقت ہوا جب ترکیہ کے سب سے بڑے شہر استنبول میں شہر کے میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کے جیل جانے کے خلاف مظاہرے شدت اختیار کر گئے تھے۔

امام اوغلو جو ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کے سیاسی حریف ہیں اور ان کو اتوار کے روز عدالت نے بدعنوانی کے الزامات پر جیل بھیج دیا تھا۔

ان کی اس گرفتاری نے پورے ملک میں زبردست احتجاج کو جنم دیا جو گزشتہ دس سالوں کے دوران سب سے بڑی عوامی بغاوت بن گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم “ایم ایل ایس اے” نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ “یہ صحافی، مظاہروں کی کوریج کے دوران حراست میں لیے گئے ہیں اور ان کی گرفتاری کی وجوہات فوری طور پر واضح نہیں ہو سکیں۔” تاہم، یہ گرفتاری اس وقت سامنے آئی ہے جب صحافیوں کی آزادی کو لے کر ترک حکومت پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یورپ میں ٹی بی کا بڑھتا ہوا خطرہ، بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگ گئیں

گزشتہ پانچ راتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جن میں زیادہ تر پرامن مظاہرین نے سڑکوں پر نکل کر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی۔

ترک حکومتی عہدیداروں نے ان مظاہروں کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے احتجاج کے دوران سامنے آنے والی تشویش کو مسترد کیا ہے۔

دوسری طرف، ترک اپوزیشن جماعت “ریپبلکن پیپلز پارٹی” (سی ایچ پی) کے رہنما ‘اوزگر اوزل’ نے استنبول کے سرایچانی ضلع میں ہونے والے مظاہرے کے دوران اعلان کیا کہ “ہم امام اوغلو کی رہائی تک یہ احتجاج جاری رکھیں گے۔”

امام اوغلو کے خلاف بدعنوانی کے الزامات ہیں جو کہ “ناقابل یقین” اور “جھوٹے” ہیں، ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری سیاسی سازش کا حصہ سمجھے جا رہے ہیں، جسے انہوں نے ترکیہ کے عدلیہ کی آزادی اور جمہوری اقدار کے خلاف سمجھا ہے۔

ترک حکومت کا موقف ہے کہ یہ تمام قانونی کارروائیاں غیر جانبدار اور آزاد عدلیہ کے تحت کی جا رہی ہیں اور ان کے خلاف لگنے والے الزامات میں کسی بھی قسم کی سیاسی مداخلت شامل نہیں۔ تاہم، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر اس واقعے کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔

یہ گرفتاریاں ایک ایسا واقعہ ہیں جس نے ترکیہ میں اظہار رائے کی آزادی اور صحافتی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش بڑھا دی ہے اور یہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔

مزید پڑھیں: انڈین پنجاب کو ‘خالصتان’ بناؤ، امریکا میں ہزاروں سکھوں کا ریفرنڈم

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس