ایف آئی اے کی جانب سے مبینہ اغوا کے اگلے روز درج کیے گئے مقدمہ میں وحید مراد کو گرفتاری کا باعث دو سوشل میڈیا پوسٹس کو قرار دیا گیا ہے۔
ریاست کی مدعیت میں درج مقدمہ کے متن کے مطابق صحافی نے بلوچستان اورایک غیرملکی ویب سائٹ کی آرمی چیف سے متعلق خبر کو شیئر کیا ہے جو خلاف قانون ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق جن دو پوسٹس کو شیئر کرنے کا ‘جرم’ سرزد کیا گیا ہے ان میں سے ایک سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اورموجودہ حکومت کےاتحادی اختر مینگل کی ٹویٹ ہے۔
اس سے قبل 13 گھنٹے سے لاپتہ صحافی وحید مراد کو اسلام آباد کچہری جوڈیشل مجسٹریٹ عباس شاہ کی عدالت میں پیش کر دیا گیا، ان کواسلام آباد سے نامعلوم افراد نے ان کے گھر سے حراست میں لیا تھا۔
وحید مراد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری ساس کینسر کی مریضہ ہیں، کینیڈا سے علاج کرانے آئیں، جو گھر اٹھانے آئے میں نے انہیں کہا اپنی شناخت کروائیں۔ بیس منٹ پہلے مجھے ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا ہے، میری آنکھوں پر پٹی تھی،
صحافی وحید مراد کی بازیابی کے لیے ان کے اہل خانہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی۔
وحید مراد کی ساس عابدہ نواز کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ’کراچی کمپنی تھانے میں درخواست دی لیکن اس کے باوجود مقدمہ درج نہیں ہوا، مغوی کو فوری بازیاب کرانے کا حکم دیا جائے۔‘
وکیل ایمان مزاری کے ذریعے دائر کی گئی درخواست میں سیکرٹری داخلہ و دفاع، آئی جی اور ایس ایچ او کراچی کمپنی کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست کے مطابق ’رات دو بجے سیاہ لباس میں ملبوس افراد جی ایٹ میں واقع گھر آئے، دو پولیس کی گاڑیاں بھی ان کے ساتھ نظر آ رہی تھیں۔ سیاہ میں ملبوس افراد وحید مراد کو زبردستی اٹھا کر لے گئے۔‘
درخواست میں ’وحید مراد کو فوری بازیاب کرانے اور ’غیر قانونی طور پر اٹھانے والوں‘ کے خلاف کارروائی کا حکم دیے جانے کی استدعا کی گئی ہے۔
منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستانی صحافی وحید مراد کے اغوا کی اطلاع پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئی جب ان کے ساتھی صحافی نے واقعہ سے متعلق سوشل میڈیا پر پوسٹ کی’۔
فرحان خان کے مطابق ‘وحید مراد کو ان کی رہائش گاہ جی ایٹ سے نامعلوم افراد نے اغوا’ کیا۔’
پاکستان میٹرز سے گفتگو میں فرحان خان نے تصدیق کی کہ وحید مراد کو رات گئے ‘ڈالوں میں سوار نامعلوم افراد اس وقت ہمراہ لے گئے جب گھر پر ان کی ضعیف ساس اکیلے موجود تھیں۔’
اے وحید مراد کے گھر کے باہر موجود فرحان خان کے مطابق ‘وحید نے انہیں فون پر اطلاع دی کہ کچھ افراد مشکوک انداز میں ان کے گھر کے باہر موجود ہیں۔ ہم کچھ دیر قبل وہاں اکٹھے موجود تھے۔ جتنی دیر میں وہاں پہنچا تو ڈالوں میں سوار نامعلوم افراد وحید کی رہائش گاہ کے باہر سے واپس ہو رہے تھے۔’
انہوں نے تصدیق کی کہ واقعہ کے وقت اے وحید مراد کی ساس گھر پر اکیلی موجود تھیں۔
وحید مراد سعودی عرب کے ڈیجیٹل میڈیا ہاؤس، اردو نیوز کے ساتھ ملٹی میڈیا جرنلسٹ کے طور پر وابستہ ہیں۔
وحید اے مراد کے اغوا کے وقت موقع پر پہنچ جانے والے ایک اور صحافی ثوبان افتخار راجہ کے مطابق انہوں نے اغواکاروں کی ویڈیو بنائی جس پر انہوں نے میرا پیچھا کیا اور مجھے غلیظ گالیاں بکتے ہوئے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی کے مطابق نامعلوم افراد نے میرے موبائل چھین لیے اور دھمکیاں دیں کہ ‘تم مجھے جانتے نہیں ہو’۔ اغوا کاروں نے گن تان کر مجھ سے زبردستی موبائل کا پاس ورڈ معلوم کیا اور مجھے چلتی گاڑی سے پھینک کر فرار ہو گئے۔
مزید پڑھیں: لاپتہ صحافی وحید مراد 13 گھنٹے بعد عدالت پیش، کہاں غائب تھا؟
صحافی اسرار احمد نے ساتھی صحافی ثوبان پر تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ وحید مراد کے اغوا کے بعد ان کے گھر پہنچنے والے کولیگ نوجوان صحافی ثوبان افتخار کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کو گن کے بٹ سے مارا گیا۔ کنپٹی پر لوڈڈ گن رکھ کر ان کے موبائل کے پاسورڈ حاصل کرنے کے بعد بیگ، موبائل، تمام گیجٹس اور سامان اغوا کار ساتھ لے گئے۔ ہم ثوبان کا میڈیکل کرانے پمز جارہے ہیں۔
اے وحید مراد کو نامعلوم افراد کے ہاتھوں اغوا کیے جانے کے بعد اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے عالمی اور مقامی میڈیا ہاؤسز سے وابستہ کئی صحافی واقعہ کی ایف آئی آر درج کرانے کراچی کمپنی پولیس اسٹیشن بھی پہنچے تاہم پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔
اے وحید مراد کی اہلیہ صحافی شنزہ نواز کے مطابق ان کے خاوند کو ‘رات دو بجے نقاب پوش افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔ وہ بار بار یہ پوچھ رہے تھے کہ اس کی بیوی کہاں ہے۔ میری والدہ بھی گھر تھیں۔ ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی ہے، دھکا دیا ہے۔ والدہ دل کی مریضہ ہیں، میری والدہ کا فون، وحید کے دونوں فون اور کچھ پیپرز لے گئے ہیں۔’