پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو 31 مارچ تک وطن واپسی کی ڈیڈ لائن دی گئی ہے، جبکہ اس فیصلے کو روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، جس میں ہائی کورٹ نے حکومت کو افغان سٹیزن کارڈ رکھنے والے پناہ گزینوں کے ساتھ آئین و قانون کے مطابق کارروائی کرنے کی ہدائیت کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے افغان پناہ گزینوں سے متعلق فرحت اللہ بابر اور دیگر کی متفرق درخواستوں پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران افغان پناہ گزینوں کے وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے خاندان تقسیم ہو جائے گے، وکیل نے کہا کہ درخواست گزار رابعہ کی پیدائش پاکستان کی ہے، ان کے پاس نادرا سے پروف آف رجسٹریشن کارڈ ہے، جبکہ ان کے شوہر کے پاس اے سی سی افغان سیٹیزن کارڈ ہے۔
وکیل کا کہنا ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں 31 مارچ تک رہنےکی پہلت دی گئی ہے، تو مہلت کے بعد آدھی فیملی واپس افغانستان چلی جائے گی اور باقی پاکستان میں رہے جائے گے۔اس طرح خاندان تقسیم ہونے سے بکھر جائیں گے،وکیل نے اپنا مؤقف پیش کرنے کے بعد کہا کہ حکومت کو ہدائیت کریں کہ اے سی سی کارڈ والوں کو پی او آر کے ساتھ رکھا جائے۔
فرحت اللہ بابر کے وکیل نے سماعت میں اپنے ریمارکس دیے کہ بلا تفریق سب کو ملک بد کرنے کی پالیسی درست نہیں کچھ خاندان دہائیوں سے پاکستان میں آباد ہیں اور کاروبار کر رہے ہیں، تو حکومت پاکستان کو اس فیصلہ پر رضاکارانہ کام کرنا چاہیے نہ کہ زبردستی ہو۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ آل پارٹی کانفرنس بلائے اور وہاں پر اس معاملے پر بحث کر کے فیصلہ کریں۔
جسٹس انعام امین نے کہا کہ حکومت کو ہم ہدایت دیتے ہیں کہ افغان مہاجرین کے معاملے میں قانون و آئین کو مدنظر رکھا جائے ان کا انخلا قانونی طریقہ کار کے مطابق ہو۔