اپریل 11, 2025 5:17 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

برطانیہ میں پڑھنے والوں کے لیے ‘سب اچھا’: کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
برطانیہ میں تقریباً 15 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔فوٹو: ڈیپوزٹس فوٹوز

“ایک بار برطانیہ پہنچ جاؤں پھر سارے مسئلے حل ہوجائیں گے” یہ جملہ  تقریبا ہر نوجوان سے سننے کو ملتا ہے ۔ برطانیہ جانے کے لیے لوگ مختلف تدابیر لڑاتے ہیں ۔ سب سے بڑا طریقہ جو پاکستانی استعمال کرتے ہیں وہ برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنا ہے۔برطانیہ میں تقریباً 17 لاکھ پاکستانی رہتے ہیں۔  لیکن کیا برطانیہ جانے سے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں؟ آئیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

برطانیہ میں موجود پاکستانی طلبا جو اعلی تعلیم اور روشن مستقبل کے لیے یہاں آتے ہیں ، یہاں آ کر بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ یہ مسائل ان کی تعلیم اور ذاتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

پاکستانی نوجوان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پرائے دیس زیادہ تر اس لیے جاتے ہیں کہ برطانیہ جا کر وہاں کی شہریت حاصل کر لی جائے اور پھر مستقل طور پہ وہاں رہا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ دورانِ تعلیم یا تو  برطانوی لڑکی سے شادی کر لیتے ہیں یا پھر کوئی مستقل ملازمت ڈھونڈتے ہیں جو ان کی شہریت کی راہ ہموار کر سکے۔

برطانیہ میں مقیم پاکستانی افراد کے اوقات کار اتنے مختلف اور سخت ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا اپنی فیملی سے رابطہ کم ہو جاتا ہے۔ والدین سے رابطہ نہ ہونا، شریک حیات سے دوری اور اولاد پر توجہ نہ ہونا وہ فوری قیمت ہے جو بیرون ملک جانے والوں کو ادا کرنا پڑتی ہے۔

پاکستانی طلبا برطانیہ میں تعلیم کے ساتھ کام بھی کرتے ہیں لیکن ان کو کم اجرت، سخت اوقات کار اور رہائش کی کمی کے مسائل بھی درپیش آتے ہیں۔ برطانوی قانون کے مطابق کم ترین اجرت  11 سے 12 پاونڈ مقرر ہے مگر وہاں موجود طلبا اس سے بھی کم پر کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں رہائش نہ ملنے کی صورت میں طلبا نجی ہاسٹل میں رہائش رکھنے پر مجبور ہیں جن کے کرائے بہت زیادہ ہیں۔

ایک اور مسئلہ جو پاکستان سے جانے والے طلبا کو بھگتنا ہوتا ہے وہ معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی رابطوں میں مشکل کا ہے۔ زبان اور مقامی لہجوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے بات چیت میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ گلوبل سٹوڈنٹ لیونگ انڈیکس کے مطابق 2021 اور 22 میں 23 ہزار سے زائد طلبا برطانیہ میں زیرِ تعلیم ہیں اور ہر سال یہ تعداد بڑھتی جاری ہے۔

عائشہ سکندر برطانیہ کی ایک یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم پاکستانی طالبہ ہیں۔  وہ بتاتی ہیں کہ یہاں آنے سے پہلے ہمیں لگتا تھا کہ یہاں آ کر ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ تعلیم  اور کام کو متوازن رکھنا بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔  ہمیں کام تلاش کرنے میں اور پھر اس کام کی مناسب اجرت  ملنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔

ایک اور طالب علم حمزہ یعقوب نے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ مختلف سماج کا ہے۔ پاکستان میں پرائویسی کا خیال نہیں رکھا جاتا جب کہ یہاں آپ کو ساتھ والے کمرے میں رہنے والے سے بھی ملنے کے لیے پہلے اجازت لینی پڑتی ہے۔

ان کے مطابق رہائش حاصل میں کئی مسائل ہوتے ہیں اگر آپ کو کوئی اپنے گھر میں رکھتا ہے تو اس کی شرائط بھی پوری کرنی پڑتی ہیں۔یہاں  پر تعلیمی نظام بھی مختلف ہے اور امتحانی طریقہ کار بھی۔ برطانیہ یا دیگر یورپی ممالک میں ٹیکنالوجی کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جس کے لیے ہمیں ٹیکنالوجی اور ڈیوائسز  کو سیکھنا پڑتا ہے۔ دوستوں کے ساتھ بیٹھنے کی بجائے کام کرنے کو ترجیح دینی پڑتی ہے تاکہ کچھ آمدن ہو سکے۔

محمد حسین کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں لوگ دوست بنانے میں وقت لیتے ہیں۔ طرزِ زندگی انتہائی مختلف ہے دکانیں صبح پانچ یا چھ بجے کھل جاتی ہیں تو ہمیں ان کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔ یہاں کام کرنے کے مواقع مل سکتے ہیں لیکن اگر آپ کا مینیجر پاکستانی یا انڈین ہے تو وہ آپ کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ کا استحصال کرتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بات سچ ہے کہ یہاں آنے کے  کچھ عرصے کے بعد آپ یہاں کی سہولیات سے فائدہ اٹھا کر اپنی زندگی بہتر بنا سکتے ہیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس