اوول آفس میں خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ تمام غیر امریکی ساختہ گاڑیوں پر یہ نیا ٹیرف لاگو ہوگا۔ ان کے مطابق یہ محصولات نہ صرف امریکی صنعت کو دوبارہ مضبوط کریں گے بلکہ ٹیکس کٹوتیوں کے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ یہ محصولات 3 اپریل سے نافذ ہوں گے اور ان کا مقصد امریکی تجارتی خسارے میں کردار ادا کرنے والے بڑے ممالک پر دباؤ ڈالنا ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین نے اس فیصلے کو کاروبار اور صارفین دونوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے اسے کینیڈین معیشت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت ملکی مفادات کا دفاع کرے گی۔
یونائیٹڈ آٹو ورکرز نے اس اقدام کی حمایت کی اور کہا کہ اس سے امریکی آٹو انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔ یونین کے صدر شان فین کے مطابق یہ محصولات امریکی آٹو ورکرز اور مقامی معیشت کے لیے مثبت پیش رفت ہیں۔
اس اعلان کے بعد کار ساز کمپنیوں کے شیئرز میں کمی دیکھی گئی اور امریکی اسٹاک مارکیٹ کے فیوچر انڈیکس بھی نیچے چلے گئے، جس سے جمعرات کو بازار کی کمزور کارکردگی کی توقع کی جا رہی ہے۔
یہ اقدام 1962 کے تجارتی ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت کیا گیا ہے، جس کے تحت 2019 میں آٹو امپورٹس کی قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس وقت کی تحقیق میں پایا گیا تھا کہ غیر ملکی آٹو درآمدات امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتی ہیں، مگر ٹرمپ نے اس وقت ٹیرف عائد نہیں کیے تھے۔
ٹرمپ کی نئی ہدایت میں آٹو پارٹس پر عارضی چھوٹ دی گئی ہے تاکہ سرکاری ادارے اس پالیسی کے نفاذ کی تفصیلات کو حتمی شکل دے سکیں۔ تاہم، امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کے تحت آنے والے آٹو پارٹس اس وقت تک ٹیرف سے مستثنیٰ ہوں گے جب تک کہ امریکی محکمہ تجارت اور کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن کوئی نئی پالیسی طے نہیں کر لیتے۔
سابق امریکی ٹریژری اہلکار بریڈ سیٹسر نے کہا کہ اس فیصلے سے کینیڈا اور میکسیکو کی تقریباً چار ملین گاڑیاں 25 فیصد یا اس سے زیادہ ٹیرف کے دائرے میں آ جائیں گی، جس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھیں گی اور امریکی کاروں کی فروخت متاثر ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اقدام امریکا-میکسیکو-کینیڈا معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور جنوبی کوریا کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
2024 میں امریکا نے 474 بلین ڈالر کی آٹوموٹو مصنوعات درآمد کیں، جن میں سے 220 بلین ڈالر کی گاڑیاں شامل تھیں۔ میکسیکو، جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا اور جرمنی امریکا کے بڑے آٹو سپلائرز ہیں۔ ان ٹیرف سے ان ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات متاثر ہونے کا امکان ہے۔