بلوچستان کے علاقے کلماٹ میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں مسلح افراد نے کراچی جانے والی مسافر بس کے چار مسافروں کو شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد گولی مار کر قتل کر دیا۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد کا تعلق پنجاب سے تھا اور تین دیگر کو اغوا کر لیا گیا۔
اس کے علاوہ بلوچستان کے ضلع گوادر میں بدھ کی رات ایک المناک واقعہ پیش آیا، جہاں مسلح افراد نے مرکزی شاہراہ کو بلاک کرکے پانچ افراد کو قتل کر دیا اور متعدد مال بردار گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا۔
پولیس ذرائع کے مطابق مسلح افراد نے تیز رفتار کارروائی کرتے ہوئے تین طویل باڈی ٹریلرز کو بھی جلا دیا جو گوادر بندرگاہ سے افغانستان جا رہے تھے اور ان میں یوریا کھاد بھری ہوئی تھی۔
ہائی وے پولیس کے ایس ایس پی حفیظ بلوچ نے میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے تاجابان علاقے میں تین ٹریلرز کو آگ لگا دی اور پانچ افراد کو قتل کر دیا۔
ایس ایس پی نے مزید بتایا کہ اس حملے کے دوران توربت، پنجگور اور پسنی کے علاقوں میں بھی سڑکیں بلاک کر دی گئیں۔
جب کہ لیویز حکام نے اطلاع دی ہے کہ بولان، کولپور اور مستونگ کے علاقوں میں بھی سڑکیں بند ہوئیں اور ایک لیویز کی گاڑی کو مستونگ میں نذر آتش کر دیا گیا۔
دوسری جانب دوسری جانب تربت کے علاقے میں بھی ایک سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر بھی حملہ کیا گیا ہے جس میں شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دیں تاہم ابھی تک اس واقعے کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہو سکی۔
سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری ان علاقوں کی طرف روانہ ہو چکی ہے جہاں مسلح افراد نے سڑکیں بلاک کیں اور آپریشنز جاری ہیں تاکہ علاقے کو محفوظ بنایا جا سکے۔
یہ خونریز حملے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی تشویش کا نشان ہیں جہاں امن و امان کی صورتحال مسلسل بگڑ رہی ہے۔
مزید پڑھیں: سائفر کیس، عمران خان اور پاکستانی عوام کی سیاسی تقسیم
میر سرفراز بگٹی نے صوبے میں حالیہ سیکیورٹی کی بگڑتی صورت حال کے تناظر میں کہا ہے کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کرنے کی ضرورت نہیں ہے، تاہم ضرورت پڑنے پر ایسا آپریشن ہو سکتا ہے۔
عالمی میڈیا کے ساتھ ایک نشست کے دوران وزیراعلیٰ بلوچستان نے یہ بات ’انڈپینڈنٹ اردو‘ کے سوال کے جواب میں کہی۔
صحافی نے سوال کیا کہ ’آیا صوبے کی موجودہ صورت حال کے پیش نظر بطور وزیراعلیٰ آپ سمجھتے ہیں کہ ملٹری آپریشن کی ضرورت ہے؟‘
سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’ہمیں خطرے سے نمٹنا ہے۔ صوبے میں سمارٹ کائنیٹک آپریشن کی ضرورت ہے جبکہ انٹیلی جنس آپریشن پہلے ہی سے صوبے میں جاری ہیں۔‘