Follw Us on:

نو دن سے لاپتہ بھائیوں کی بازیابی کا معاملہ، اسلام آباد پولیس نے اب تک کیا کیا؟

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

اسلام آباد ہائیکورٹ میں اسلام آباد سے نو دن سے لاپتہ دو بھائیوں کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد نے عدالت سے مزید دو ہفتوں کا وقت طلب کیا، جس پر لاپتہ بھائیوں کی والدہ روسٹرم پر آبدیدہ ہوگئیں۔ جسٹس انعام امین منہاس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے؟ آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ دو ہفتے ہمیں دے دیں۔ یہ سن کر لاپتہ بیٹوں کی والدہ زار و قطار روتے ہوئے بول پڑیں، “ایک سال لے لیں!”

سماعت کے دوران لاپتہ افراد کی والدہ اور ہمشیرہ عدالت کے سامنے پیش ہوئیں، جبکہ درخواست گزار کی وکیل ایڈووکیٹ ایمان مزاری بھی موجود تھیں۔ آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے عدالت کو بتایا کہ میں نے اس معاملے کو سپروائز کیا ہے، ایک اسپیشل تحقیقاتی ٹیم بنائی ہے، جس کی قیادت ایس ایس پی آپریشنز کر رہے ہیں۔ جیو فینسنگ کرائی جا چکی ہے اور کال ڈیٹا ریکارڈ (سی ڈی آر) بھی حاصل کر لیا گیا ہے۔ 27 تھانوں اور سی ٹی ڈی میں بھی چیک کیا ہے، مگر کسی کے پاس کوئی اطلاع نہیں۔ ہم نے ملک بھر کے آئی جی جیل خانہ جات سے بھی رابطہ کیا، لیکن کچھ معلوم نہیں ہوا۔

جسٹس انعام امین منہاس نے دریافت کیا کہ اس کا حل کیا ہے؟ بندے تو لاپتہ ہوئے ہیں! آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا، “ہمیں کچھ وقت دیا جائے، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں۔” اس پر وکیل ایمان مزاری نے کہا، “یہ کہہ رہے ہیں کہ سارے ہسپتال چیک کر لیے، سب کچھ چیک کر لیا، مگر کیا ان کو بھی چیک کیا ہے جن پر شک ہے؟ ہم نے اپنی درخواست میں وزارت داخلہ کے ماتحت خفیہ اداروں پر الزام لگایا ہے۔”

جسٹس انعام امین منہاس نے جواب دیا، “ان کو نوٹس دیا گیا ہے، ان کا جواب آ جائے تو دیکھ لیتے ہیں۔” ایمان مزاری نے مزید کہا، “جن مقامات پر کیمرے تھے، ان کی فوٹیج پولیس نے حاصل کر لی ہے، مگر اب تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔” جسٹس انعام امین منہاس نے ہدایت دی، “آپ اس حوالے سے پولیس کو بتائیں، وہ دیکھیں گے۔”

جسٹس انعام امین منہاس نے استفسار کیا، “کیسے اسلام آباد سے نکلے؟ کہاں ہیں؟ یہ آپ نے دیکھنا ہے۔” اس پر ایمان مزاری نے کہا، “کیا انہوں نے سیف ہاؤسز میں بھی چیک کیا ہے؟ کل بھی ایک صحافی کو اٹھایا گیا تھا، پھر ایف آئی اے نے پیش کر دیا۔” جسٹس انعام امین منہاس نے ریمارکس دیے، “وزارت دفاع کا جواب آنا اب ضروری ہو چکا ہے۔” انہوں نے مزید حکم دیا کہ سیکرٹری دفاع آئندہ سماعت پر جواب جمع کرائیں۔

دوران سماعت لاپتہ بھائیوں کی والدہ نے کمرہ عدالت میں روتے ہوئے کہا، “اگر آپ اللہ کو حاضر ناظر جان کر بتائیں، اگر آپ کے بچے ہوتے یا ان کے بچے ہوتے تو کیا کرتے؟ اس روز میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ میرے بیٹوں کو کچھ ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا؟”

وکیل ایمان مزاری نے عدالت سے استدعا کی، “عدالت دونوں لاپتہ بھائیوں کو ریکور کر کے پیش کرنے کا حکم دے۔” اس پر والدہ نے کہا، “میں بہت زیادہ پریشان ہوں!” عدالت نے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔ سماعت ملتوی ہونے پر لاپتہ بھائیوں کی والدہ زارو قطار روتے ہوئے کمرہ عدالت سے باہر نکل آئیں۔

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس