امریکی امیگریشن حکام نے ٹفٹس یونیورسٹی کی ترک نژاد پی ایچ ڈی طالبہ رومیسا اوزترک کو حراست میں لے لیا، جہاں انہیں سومرویل میں ان کے اپارٹمنٹ کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔
عالمی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق وکیل ماشا خان کا کہنا ہے کہ اوزترک کو سادہ لباس میں ملبوس چھ اہلکاروں نے گھیر لیا، جنہوں نے گرفتاری سے قبل کوئی بیج نہیں دکھایا۔ محلے کی نگرانی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ چلتے ہوئے اچانک روکی گئیں اور پھر انہیں ایک گاڑی میں بٹھا کر لے جایا گیا۔
محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی (DHS) کے مطابق اوزترک پر “حماس کی حمایت میں سرگرمیوں میں ملوث ہونے” کا الزام ہے، تاہم حکام نے ان مبینہ سرگرمیوں کی تفصیلات فراہم نہیں کیں۔
ٹفٹس یونیورسٹی نے ایک بیان میں واضح کیا کہ انہیں اوزترک کی گرفتاری کا پہلے سے کوئی علم نہیں تھا۔ یونیورسٹی کے صدر سنیل کمار نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے بین الاقوامی طلبہ اور کمیونٹی کے لیے باعثِ تشویش ہے۔
اوزترک کے بھائی عاصم اوزترک نے کہا کہ “انہیں صرف اپنے نظریات کے اظہار کی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ فلسطین کے حق میں بات کرنے والوں کے خلاف ایک مہم کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔”
گرفتاری کے بعد، ٹفٹس یونیورسٹی کے قریب سینکڑوں افراد نے اوزترک کی رہائی کے حق میں مظاہرہ کیا۔
ترک سفارت خانے کا کہنا ہے کہ وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکی حکام سے رابطے میں ہیں۔ “ہم اپنے شہری کے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔
اوزترک کو لوزیانا میں امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کی حراستی سہولت میں رکھا گیا ہے، جہاں ان کے وکیل کے مطابق انہیں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔
یہ واقعہ امریکی امیگریشن پالیسی پر سوالیہ نشان کھڑا کر رہا ہے، خاص طور پر ان غیر ملکی طلبہ کے لیے جو فلسطینی کاز کی حمایت کر رہے ہیں۔