Follw Us on:

ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Protest in turkye
ترکیہ: بی بی سی کے صحافی کی ملک بدری، اپوزیشن ٹی وی چینل پر پابندی لگا دی گئی

ترکیہ میں حکومت نے حالیہ مظاہروں پر کریک ڈاؤن کو مزید تیز کرتے ہوئے ‘بی بی سی’ کے ایک صحافی کو ملک بدر کر دیا اور ایک اپوزیشن ٹی وی چینل پر دس روزہ براڈکاسٹ کی پابندی عائد کر دی۔

یہ اقدامات اس وقت کیے گئے جب 19 مارچ کو استنبول کے مقبول میئر ‘اکرم امام اوغلو’ کی گرفتاری کے بعد ترکیہ میں شدید مظاہروں شروع ہو گئے تھے۔

یہ مظاہروں 2013 کے بعد سے ترکیہ میں سب سے بڑے اور ہنگامہ خیز مظاہروں کی صورت اختیار کر گئے ہیں۔

پولیس نے 11 ترک صحافیوں کو بھی حراست میں لیا جن میں اے ایف پی کے فوٹوگرافر یاسین آکگل بھی شامل تھے۔ تاہم، یاسین آکگل کو استنبول کی جیل سے 17 گھنٹے بعد رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی کے باوجود ان کے خلاف مقدمہ ابھی بھی جاری ہے۔

یہ احتجاج 19 مارچ کو شروع ہوئے جب استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ‘یوکرین میں عبوری حکومت، نئے انتخابات اور جنگ بندی کے معاہدوں کی ضرورت ہے’ ولادیمیر پوتن

ان کی گرفتاری کے بعد ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کا سلسلہ روزانہ جاری رہا۔

ان مظاہروں میں اکثر وقت پر پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، جنہوں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جنہیں عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

ان اقدامات میں ایک اہم واقعہ بھی سامنے آیا جب ترکیہ نے بی بی سی کے صحافی مارک لووین کو ملک بدر کر دیا۔

بی بی سی کے مطابق ‘مارک لووین’ کو 17 گھنٹے تک حراست میں رکھنے کے بعد ترکی سے نکال دیا گیا۔

اس واقعے پر بی بی سی نیوز کی سی ای او ‘ڈیبورا ٹرنز’ نے شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ‘انتہائی پریشان کن’ ہے اور اس معاملے پر ترک حکام کے ساتھ بات چیت کی جائے گی۔

مارک لووین نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اخراج ‘انتہائی افسوسناک’ تھا اور انہوں نے مزید کہا کہ صحافت کی آزادی جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔

لووین نے کہا کہ وہ ترکیہ میں پانچ سال گزار چکے ہیں اور یہاں کی سیاست اور معاشرتی حالات سے بخوبی آگاہ ہیں۔

اس دوران ترکیہ میں 19 مارچ سے اب تک 1,879 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے جن میں صحافیوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔

ترک وزیر داخلہ ‘علی یرلکایا’ نے بتایا کہ ان میں سے 260 افراد کو جیل میں بند کر دیا گیا ہے جبکہ 468 افراد کو مشروط رہائی دی گئی ہے۔ اور باقی افراد کا کیس ابھی زیر غور ہے۔

مزید پڑھیں: گرین لینڈ نے امریکا مخالف سیاسی اتحاد پر اتفاق کرلیا

Author

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس